سابق وزیراعظم عمران خان نے 17جولائی کو پنجاب میں ہونے والے ضمنی انتخابات کے بعد ایک تفصیلی بات چیت میں جاری مسائل کے حل کو حسبِ معمول ملک میں عام انتخابات سے مشروط کردیا ہے، یہ الگ بات ہے کہ موجود سیاسی بحران، مسائل اور اقتصادی مشکلات ان کی حکومت میں بھی موجود تھیں، دوسری طرف موجودہ اتحادی حکومت نے چند ایک اقدامات کے علاوہ تین ماہ کے دوران کوئی ایک بھی غیر معمولی پالیسی نہیں بنائی اور پنجاب کے انتخابی نتائج کو بعض دیگر اسباب کے علاوہ مہنگائی کا نتیجہ بھی قرار دیا جارہا ہے۔ تاہم اس کی کو ضمانت نہیں ہے کہ اگر قبل از وقت انتخابات ہوتے ہیں توتحریک انصاف پھر جیت جا ئے‘ کیونکہ ان کے پاس بھی اس وقت کوئی ٹھوس پالیسی نظر نہیں آرہی اورق لیگ کے علاوہ ان کا کوئی سیاسی اتحادی نہیں ہے۔
اس صورت میں میں محض مزاحمتی اور جذباتی طرزِ سیاست سے قبل از وقت انتخابات کا انعقاد مسائل کا حل کیسے ممکن ہوسکتا ہے اس کا جواب عمران خان اور ان کے حامیوں کے پاس بھی نہیں ہے‘ المیہ یہ ہے موجودہ مخلوط حکومت اور تحریک انصاف دونوں کو محض الزامات کا سہارا لینے کی بجائے ٹھوس پالیسی پر عمل پیرا ہونا ہوگا‘حکومت کو بھی اب غیرمعمولی اقدامات کی صورت میں کچھ ڈیلیور کرنا ہوگا۔حالانکہ اس دلیل کو بھی کلی طور پر رد نہیں کیا جاسکتا کہ اس حکومت کو قائم ہونے کو محض تین ماہ کا وقت گزر چکا ہے، بات ایک درست سیاسی اور انتظامی سمت کے تعین کی ہے،یہ تاثر اب بہت عام ہے کہ اتحادی جماعتوں کا بنیادی مقصد ملک کو اچھی گورننس دینے سے زیادہ عمران خان سے جان چھڑانا تھا ورنہ اتحادی پنجاب کو ن لیگ اور تحریک انصاف کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑتے۔
ان کی عدم دلچسپی یہ عالم ہے کہ تین ماہ گزرنے کے باوجود اتحادی پختون خوا سمیت بعض دیگر صوبوں کے نئے گورنر مقرر کرنے میں بھی کامیاب نہ ہوسکے جبکہ مسلم لیگ ن تاحال یہ فیصلہ بھی نہ کرسکی کہ میاں نواز شریف نے پاکستان آنا ہے یا نہیں۔اس صورتحال کا عمران خان فائدہ اٹھا رہے ہیں‘سیاسی کشیدگی کا حل تلاش کرنے کیلئے لازمی ہے کہ تمام فریقین الزام تراشیوں اور ماضی کی غلطیوں پر بحث کی بجائے ملکی حالات کا ادراک کرتے ہوئے ایک دوسرے کو برداشت کرکے تلخی کم کرنے پر توجہ دیں اور انتخابی اصلاحات کے ذریعے نظام میں موجود نقائص ختم کریں ورنہ دوسری صورت میں عوام کا جمہوری نظام اور سیاسی جماعتوں پر سے اعتماد ختم ہوجائے گا اور ملک خدا نخواستہ انارکی کی صورتحال سے دوچار ہو جائیگا‘اس وقت سیاسی جماعتوں کے قائدین پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ان نازک حالات میں وہ دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیاسی بحران کاخاتمہ کرنے میں اپنا کردار ادا کریں اور ایسا کرنا ملک، قوم اورخود سیاسی جماعتوں کے بہترین مفاد میں ہے۔