کیمپس میں چپقلش کی دھندلی فضا

وہ کیا مزے کا دور تھا جب دو عشرے قبل تک قدیم درسگاہ اور ان سے ملحقہ تعلیمی ادارے ایک ہی بہترین ایکٹ مجریہ1974ء کے تحت چل رہے تھے‘ یہ وہ وقت تھا جب جامعہ پشاور اور اسلامیہ کالج سپوت پیدا کر رہے تھے‘ انجینئرنگ ایگریکلچرل بھی کالج تھے جبکہ میڈیکل یونیورسٹی تاحال قائم نہ تھی لہٰذا قدیم خیبر میڈیکل کالج بھی پشاور یونیورسٹی کے زیر انتظام تھا تاہم بعد ازاں اسلامیہ کالج کو سال2008ء میں اپنے ایک قابل اور وفادار شاگرد نے بحیثیت گورنر یونیورسٹی کا درجہ دیدیا مگر خیبر میڈیکل جو کہ ہر لحاظ سے یونیورسٹی بننے کی صلاحیت رکھتا تھا کالج ہی رہ گیا‘ وقت گزرتا گیا اور بالاخر تبدیلی کا دور آ پہنچا جس نے صوبے میں ذیلی یونیورسٹیوں کا جال تو بچھایا مگر جامعات کی خود مختاری معدوم ہوتی چلی گئی اس وقت تک صوبے میں سرکاری یونیورسٹیوں کی تعداد چار تک پہنچ گئی تھی مگر اب یہ تعداد پبلک سیکٹر اور پرائیویٹ ملا کر 42 ہو گئی ہے دو عشرے قبل تک پروفیشنل یونیوسٹیوں کیلئے معمولی فرق کے ساتھ تمام جامعات ایک ایکٹ کے تحت بطریق احسن چلتی رہیں‘ انتظام و انصرام بہتر تھا‘ سیاست بازی اور نعرہ بازی عروج پر نہ تھی جبکہ دھرنا احتجاج ابھی دریافت نہیں ہواتھا چلتے چلتے جامعات سیاست کے اکھاڑے میں تبدیل ہو گئیں۔

 قانونی باڈیز کا بلڈوز ہونا شروع ہو گیا اور بالآخروہ وقت آیا کہ سینیٹ کے ایک چیئرمین نے کئی بار سٹیج پر آ کر برملا کہا کہ وہ کسی سنڈیکٹ کو نہیں مانتے سنڈیکٹ فیصلے کرتے رہے اور وہ اسے کالعدم کرتے رہیں گے‘ تبدیلی کی ہوا نے وائس چانسلر کے انتخاب کی سرچ کمیٹی کو بھی کہیں سے کہیں پہنچا دیا جس کی حیثیت بقول سیٹک ہولڈرقابل غور ہے ایسے میں ڈاکٹر احسان علی جیسے وائس چانسلر بھی پیدا ہوئے جنہیں اگر بابائے میوزیم اور کیمپسز کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا مگر مخصوص نظریات کے حامل اساتذہ کووہ جس طرح حالت کا ر وزیار کے دوران قابل قبول نہیں تھے اب اس کا تذکرہ کچھ بہتر الفاظ میں نہیں کرتے نئے دور کے ماڈل ایکٹ نے اپنی ترمیمات کے ذریعے وائس چانسلروں کو کافی حد تک بے اختیار بنا دیا مگر اس کے باوجود بھی امیدوار اس نشست تک پہنچنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور تو کیا بعض لوگ تو اس سے بھی کہیں زیادہ چہ میگوئیاں کرتے ہیں‘ یونیورسٹی سے ملحقہ (ایفیلیٹڈ نہیں) کے پرنسپل کی تین سالہ مدت ختم ہونے پر وائس چانسلر فیکلٹی میں سے تین سینئر کو انٹرویو کیلئے طلب کرکے ان میں ایک کی تقرری سینیارٹی اور میرٹ پر عمل میں لایا کرتے تھے مگر اب کہا جا رہا ہے کہ یہ اختیار بھی وائس چانسلر سے جاتا رہا بلکہ وہ تینوں نام سنڈیکٹ میں لے جاکر منظوری کیلئے پیش کریں گے۔

 اس طرح یہ آج کل کی اس مقدمہ بازی ویڈیو سازی اور وائرل پر دازی کا بھی کہیں نام و نشان نہیں تھا مجھے یاد نہیں کہ انتظامیہ کے اندر مسٹر شیرین زادہ خٹک اورڈاکٹر عظمت حیات کے دور سے جس چپقلش کی ابتداء ہوئی تھی اور اس میں شعبہ علوم ماحولیات کے اس وقت کے چیئرمین ڈاکٹر سید شفیق الرحمان نے ایک فریق کی حمایت میں کلیدی کردار ادا کیا تھا اس سے قبل ایسی کوئی مثال موجود تھی یا نہیں البتہ ڈاکٹر رسول جان کے بعد قائمقام وائس چانسلر ڈاکٹر محمد عابد کے دورمیں رجسٹرار سید فضل ہادی اور وائس چانسلر موصوف کے مابین چپقلش اور رسہ کشی تو انتہا کو پہنچ گئی تھی جس کے اثرات ایک فریق کیلئے اس کے باوجود اب بھی ناقابل قبول ہیں کہ وہ ناظم امتحانات کا منصب بطریق احسن چلا رہے ہیں جبکہ اب تو سنڈیکٹ کے معزز رکن بھی منتخب ہو چکے ہیں‘ رسہ کشی چپقلش اور میں نامانوں کا سلسلہ تا حال جاری ہے مگر اس وقت اس تنازعہ کے فریق وائس چانسلر اور پیوٹا کا اکثریتی فرینڈز گروپ ہیں جہاں تک انتظامیہ کی دوسری اکائیوں کا تعلق ہے تو وہ ڈاکٹر ہادی کے معاملے سے قدرے کم سہی مگر ایک حد تک فرینڈز کیخلاف انتظامی سربراہ کی پشت پر اکٹھے ہو گئی ہیں‘ اختلاف اور تضاد یہ ہے کہ ایک فریق کہتا ہے کہ وہ یونیورسٹی کی بھلائی اور ترقی کیلئے سوچ رہا ہے جبکہ دوسرے کا موقف ہے کہ ایکٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قانونی باڈیز کی حیثیت اور اختیار کو ختم کیا جا رہاہے دیکھتے ہیں کہ اس مخاصمت کا نتیجہ کیا نکلتا ہے۔