یہ اطلاع بہت خوش آئند ہے کہ پاکستان کے ایک سرکاری وفد کے ایک حالیہ دورہ کابل کے دوران طے یہ پایا ہے کہ دونوں برادر ممالک کے عوام کی آمدورفت کے لئے اگست سے دو روٹس پر جدید بس سروس کا آغاز کیا جائے گا جبکہ ویزا پراسیس کو سہل بنانے اور دو طرفہ تجارت کو فروغ دینے کی تجاویز پر بھی غور کیا گیا ہے۔ پاکستان کے سیکرٹری خارجہ کے قیادت میں کابل کا دورہ کرنے والے وفد نے افغانستان کے متعلقہ حکام کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں کے دوران فیصلہ کیا کہ اگست سے طورخم اور چمن کی کراسنگ پوائنٹس پر جدید بس سروس کا آغاز کیا جائے گا جبکہ ویزا پالیسی کو بھی آسان بنا دیا جائے گا ساتھ میں تجارت بڑھانے اور مزید کراسنگ پوائنٹس کو فعال بنانے کے اقدامات بھی کئے جائیں گے۔تلخ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت وہاں کے مسائل کے باعث تاریخ کی کم ترین سطح پر پہنچ گئی ہے جو کہ 40 سے 50 کروڑ کہی جارہی ہے حالانکہ سال 2017 کے دوران یہ تجارت دو سے تین ارب ڈالر تھی اور سال 2002 سے 2009 تک یہ ریکارڈ چار ارب ڈالر تک پہنچ گئی تھی۔
پاکستان کے لیے افغانستان سب سے آسان اور منافع بخش مارکیٹ ہے تاہم ہمارے متعلقہ اداروں کی غیر سنجیدگی اور افغانستان کے حالات کے باعث ہم اس وسیع مارکیٹ سے فائدہ نہیں اٹھا سکے۔ افغانستان کے راستے ہم سنٹرل ایشیا کی ریاستوں اور مشرقی یورپ کی مارکیٹ تک بھی آ سانی کے ساتھ پہنچ سکتے ہیں۔ ان ممالک کو ہم نے کبھی اس پس منظر میں اہمیت نہیں دی کہ ہم وہاں سے دوطرفہ طور پر توانائی کے بحران کے خاتمے اور تجارت سمیت ناقابل یقین فوائد حاصل کرسکتے ہیں۔ اب چونکہ روس سمیت ان ریاستوں کے ساتھ ہمارے تعلقات بہت بہتر ہوگئے ہیں اس لیے لازمی ہے کہ اس جانب غیر معمولی توجہ دی جائے اور اگر ہم نے ایسا کیا تو ہماری معیشت کو پر لگ جائیں گے کیونکہ سی پیک اور بعض دوسرے منصوبوں کے ذریعے لا محدود فوائد حاصل کرنے کے مواقع مزید بڑھ گئے ہیں۔
سنٹرل ایشین افیئرکے ممتاز اقتصادی ماہر ڈاکٹر غلام صمد کے مطابق افغانستان اور وسطی ایشیا کی ریاستوں میں پاکستان کے لئے بے پناہ تجارتی گنجائش موجود ہے اگر ہمارے پالیسی ساز اس جانب توجہ دیکر عملی اقدامات کریں تو ہم نہ صرف یہ کہ جاری اقتصادی بحران اور اس کے پیدا شدہ مسائل سے نکل آئیں گے بلکہ ہم معاشی ترقی کے ایک نئے دور میں بھی داخل ہو جائیں گے۔ ان کے مطابق ایسا ہونے سے مغرب پر ہمارا انحصار کم ہوجائے گا۔اس سے جنگ زدہ پاکستانی علاقوں کے لوگوں کی تقدیر بدل جائے گی اور پیپلز ٹو پیپلز کنٹکٹ کے فارمولے کے تحت ان ممالک کے مجموعی تعلقات میں بھی غیر معمولی بہتری واقع ہوگی۔سچی بات تو یہ ہے کہ پاکستان کو ان مواقع سے فوری طور پر فائدہ اٹھانے میں اب مزید تاخیر نہیں کرنی چاہئے اور ترجیحی بنیادوں پر عملی اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ خطے کے تمام ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری لائی جاسکے اور مستقبل کے چیلنجز کو امکانات میں تبدیل کیا جا سکے۔