مادر علمی کا المیہ

صوبے کی پرانی یونیورسٹیا ں بالخصوص جامعہ پشاور تعلیمی ایمر جنسی اور اصلاحات کے ہاتھوں مالی مشکلات کے جس بھنور میں پھنس گئی ہے اس سے نکلنے کی کوششیں تاحال نمایاں طور پر نتیجہ خیز نظر نہیں آ رہی ہیں تاہم انتظامی سربراہ اس سے متفق نہیں اور اپنی انتظامیہ کی تائید سے یہ بات بر ملا طور پر کر رہے ہیں کہ یہ ان کی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ یونیورسٹی کو مالیاتی اداروں کے قرضوں سے نجات مل گئی اور بیسک پے کی حالت سے واپس قدرے مالی استحکام سے ہمکنار ہو کر اس کے قابل ہو گئی ہے کہ پنشن‘ تنخواہیں اور الاؤنسز کی بروقت ادائیگی کر سکیں‘ جامعہ کے انتظامی سربراہ کا ایک شکوہ یہ ہے کہ اساتذہ کا ایک مخصوص گروپ مسائل کے حل اور یونیورسٹی کی ترقی کی کوششوں کی راہ میں روڑے اٹکا رہا ہے وہ اپنی انتظامیہ کی تائید و حمایت سے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اساتذہ کا مخصوص گروپ یونیورسٹی میں الگ انتظامیہ کی شکل اختیار کر چکا ہے اور جامعہ کے امور میں اپنی من مانی کو ترجیح دیکر ان کے لئے مشکلات پیدا کر رہا ہے۔ دوسری جانب متذکرہ مخصوص گروپ جو کہ در حقیقت گروپ نہیں بلکہ جامعہ کے تقریباً چھ سات سواساتذہ کی ایسوسی ایشن ہے جس کا ایک باقاعدہ آئین ہے اور ایک منتخب ایگزیکٹیو باڈی اس کے تحت کام کرتی ہے‘ ایسوسی ایشن کے جس اکثریتی دھڑے کو مخصوص گروپ کا نام دیا جاتا ہے۔

نیشنلسٹ نظرئیے کے پیرو وہ اساتذہ یا بہ الفاظ دیگر فرینڈز ایسوسی ایشن اور جامعہ کی قانونی باڈیز کا ہر الیکشن اکثریت سے جیت کر منتخب حیثیت سے سامنے آتا ہے۔ اکثریتی فرینڈز فورم کی شکایت ہے کہ انتظامی سربراہ چند مخصوص اساتذہ کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں اور اقلیت کی ایماء پر واضح بھاری اکثریت کو نشانہ بنا رہے ہیں ان کی ایک شکایت یہ بھی ہے کہ سنڈیکٹ کے فورم پر قواعد و ضوابط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے باڈی کے چیئرمین اپنی من مانی مسلط کرنے کی کوشش کے ساتھ ساتھ ضد بھی کر رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ جامعہ کے بعض ڈینز اور اساتذہ کے منتخب نمائندے تقریباً ہر سنڈیکیٹ سیشن سے واک آوٹ پر مجبور ہو جاتے ہیں وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ امسال رمضان سے قبل اساتذہ کی سربراہی میں یونیورسٹی ملازمین نے مشترکہ طور پر تین ہفتے کی تالہ بندی کرکے اس کے خاتمے کا اعلان جس معاہدے کے تحت کیا تھا انتظامیہ کی طرف سے اس پر کوئی ٹھوس عمل درآمد سامنے نہیں آیا۔ 

انتظامیہ اور پیوٹا میں برسر اقتدار اکثریتی دھڑے کے مابین یہ چپقلش مخاصمت اور رسہ کشی اس کے باوجود آئے روز بڑھ رہی ہے کہ حکومت کی طرف سے تعلیمی بجٹ مسلسل گھٹایا جا رہا ہے اور مداخلت بدستور بڑھ رہی ہے ایسے میں سنڈیکیٹ کے حالیہ دو بجٹ سیشنوں میں سے فرینڈز سے تعلق رکھنے والے منتخب نمائندوں کے واک آوٹ کے باوجود بجٹ کی منظوری اور بعض دوسرے فیصلوں کے ساتھ ساتھ سینیٹ میں پرو چانسلر کی طرف سے جامعہ کے مختلف معاملات اور ٹیچرز کمیونٹی سنٹر کی آمدنی اور لاگت کی چھان بین کے لئے بیورو کریٹ کی کمیٹی تشکیل دینے سے رہی سہی کسر پوری ہو گئی ہے یعنی جلتی پر تیل کا کام اس لئے تو 5 جولائی کے احتجاجی اجتماع میں اساتذہ اور غیر تدریسی ملازمین کے نمائندوں کا رد عمل مزید شدید ہو کر سامنے آیا ہے۔

 حالانکہ انتظامی سربراہ کی کوششوں سے حکومتی گرانٹ کا حصول کسی حد تک ممکن ہو کر یونیورسٹی اس کے قابل ہو گئی کہ تنخواہوں اور الاؤنسز میں ہونے والے قدرے اضافے کے بقایا جات درجہ چہارم کو یکمشت اور دوسرے ملازمین کو اقساط میں ادا کریں مگر انتظامیہ کی یہ کامیابی اساتذہ اور نان ٹیچنگ سٹاف کی اکثریت کیلئے قابل قبول نہیں اور وہ انتظامی سربراہ کی اس گزارش کو بھی یکسر رد کر رہے ہیں کہ موجودہ مشکل مالی صورتحال میں ملازمین کی کفایت شعاری اور قربانی کی ضرورت ہے لیکن گزارش کے جواب یا رد عمل کے طور پر احتجاجی ملازمین کی یہ بات مسلسل دھرائی جا رہی ہے کہ وہ جن قواعد و ضوابط کے تحت بھرتی ہوئے ہیں اور جو مراعات یا الاؤنسز قانونی طور پر ان کی تنخواہوں کا حصہ ہیں ان میں وہ ایک پائی چھوڑنے کیلئے بھی آمادہ نہیں لہٰذا اس ضمن میں یہ کہنا مناسب ہو گا کہ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟