ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں صوبائی حکومت کی تشکیل کے معاملے پر اپریل سے لیکر اب تک جو کچھ ہوا اس کے باعث سیاسی کشیدگی اور بد اعتمادی میں مزید اضافہ ہوگا۔مسئلے کا ایک جز اعدالتی فیصلے کے نتیجے میں فی الحال حل ہوگیا ہے۔ ایک میچور جمہوری معاشرے میں سیاسی معاملات اسمبلیوں کے ذریعے حل کرنے کئے جاتے ہیں تاہم ہمارے ہاں یہ روایت شایدابھی پروان نہیں چڑھی۔ملک کے سیاسی معاملات میں بعض حلقوں نے حسب معمول ملک کی مقتدر قوتوں کو بھی اس معاملے میں کھینچنے کی پھر کوششیں کیں حالانکہ وقف حال لوگوں کو علم ہے کہ ان اداروں کا اس گیم میں کوئی عمل دخل نہیں بلکہ ان کی کوشش اور خواہش رہی کہ دستور کے مطابق ان تمام مسائل کا سیاسی حل تلاش کیا جائے تاکہ ملک آگے بڑھ کر ترقی کرسکے۔
ملک میں اس کے باوجود یہ بحث پھر سے دہرائی گی کہ بحران کے حل کے لیے قبل از وقت انتخابات کا اعلان کیا جائے تاہم اس کے نتیجے میں بحران کم ہوگا یا بڑھے گا اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں کیونکہ جاری کشیدگی اور بحران سال 2018 کے الیکشن کے بعد ہی شروع ہوگیا تھا اور تمام سیاسی جماعتیں اس کے باوجود حالات کو سنبھالنے میں ناکام رہی تھی کہ ہر پارٹی کسی نہ کسی شکل میں اقتدار کا حصہ تھی۔اب بھی مقبول عام پارٹیوں میں جماعت اسلامی اور پختون خوا میپ کو چھوڑ کر تقریبا تمام پارٹیاں کسی نہ کسی صوبے یا مرکز میں برسر اقتدار ہیں۔عمران خان نئے انتخابات کا ایجنڈا لیکر نکلے ہیں مگر حقیقت تو یہ ہے کہ اقتدار کے سب سے مرکزی شیئر ہولڈر پنجاب کی حالیہ تبدیلی کے بعد عمران خان ہی ہیں۔
صدر کا عہدہ ان کی پارٹی کے پاس تو پنجاب، خیبر پختون خوا، کشمیر اور جی بی کی حکومتیں بھی ان کی ہیں بلکہ اب شیخ رشید سمیت بعض دیگر نے تویہ بیانات بھی دئیے ہیں کہ وہ پنجاب کے بعد مرکز میں عدم اعتماد لاکر پھر سے اپنی حکومت بنانے کا سوچ رہے ہیں۔سب سے اہم ایشو یہ بھی ہے کہ اس دوران سیاسی جماعتوں کے درمیان بدگمانیاں اور تلخیاں پیدا کرنے سے پاکستان کی ریاست، معیشت اور سب سے بڑھ کر معاشرت کا جو نقصان ہوا ہے اس کی تلافی اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔سچی بات تو یہ ہے کہ ملک کو داخلی اور خارجی سطح پر جو چیلنجز درپیش ہیں، جملہ سیاسی قیادت کوان کا ادراک اور احساس کرنا چاہئے۔اب بھی وقت ہے کہ سیاسی اختلافات سے نکل کر قوم کو اس کشمکش، کشیدگی اور بے سکونی سے نکال کر مستقبل پر توجہ مرکوز کی جائے۔