ملک کی قدیم درسگاہ جو کہ اب یونیورسٹی کیمپس کے روڈ نمبر2 تک محدود رہ گئی ہے اور وہ بھی ٹو سٹروک رکشوں کی روز افزوں بڑھتی ہوئی بہتات پک اینڈ ڈراپ اور غیر قانونی پرائیویٹ ٹیکسیوں نے اپنے نرغے میں لے رکھا ہے مطلب ٹریفک کا کوئی سسٹم ہے اور نہ ہی کوئی روک ٹوک نہ کوئی قاعدہ ضابطہ اور نہ ہی کوئی مخصوص روٹ،یعنی کوئی کسی بھی وقت آ کر یہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ جامعہ کے روڈ نمبر2 اور باہر جمرود روڈ میں فرق کیا ہے؟ اسے کہتے ہیں انتظام و انصرام کا فقدان‘ بہر کیف اس دگرگوں حالت میں جامعہ کے سربراہ کی طرف سے طلباء کی تعداد اور یونیورسٹی کا درجہ بڑھانے کی انتھک کوششیں بھی جاری ہیں مگر فی الوقت اس کے نتائج کے بارے میں کوئی رائے زنی قبل از وقت ہو گی۔ البتہ یہ کہنا مناسب ہو گا کہ آغاز ہوگیا ہے انجام خدا جانے بہتر ہو گا کہ یہ کوششیں توانائی کی بچت یا کفایت شعاری میں ائیرکنڈیشن چلانے پر جزوی پابندی کی طرح ثابت نہ ہوں جہاں تک یونیورسٹیوں کی رینکنگ یا درجہ بندی کی دوڑ کا تعلق ہے تو اس میں ملک بالخصوص صوبے کی وہ جامعات بھی سر توڑ انداز میں شامل ہیں بلکہ صف اول دوم اور سوئم میں بھی کھڑی ہو گئی ہیں جن کی کارکردگی کسی بھی لحاظ سے قابل ذکر تسلیم نہیں کی جا سکتی۔
در حقیقت جامعات کی کارکردگی کی جانچ رپورٹیں جن ایجنسیوں کی طر ف سے جاری ہوتی ہیں ایک تو ان میں اکثریت غیر ملکی ہوتی ہیں جبکہ ساتھ ہی اگر مکمل غیر جانبداری سے ان رپورٹس کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آ جائے گی کہ یہ سو فیصد تو دور کی بات50 فیصد حقائق پر بھی مبنی نہیں ہوتیں حیرت ہے کہ ایک ہی سال یا سیشن کے دوران ایک ایجنسی کی رپورٹ میں غیر متوقع طور پر کسی ایک یونیورسٹی کو ملکی سطح پر جبکہ دوسری اور تیسری کو صوبائی سطح پر درجہ اول دوم اور سوئم کی حامل قرار دیا جاتا ہے جبکہ اس کے بعد دوسری ایجنسی کی رینکنگ سروے کی جانچ رپورٹ میں یہ اعزاز اس ملک اور اسی صوبے کی دوسری جامعات کی جھولی میں ڈال دیا جاتا ہے بندہ حیران و پریشان رہ جاتا ہے کہ آخر اس درجہ بندی میں ملک کی قدیم یعنی70 سال سے بھی کچھ زیادہ پرانی یونیورسٹی یعنی جامعہ پشاور آخر کیوں شامل نہیں؟
بلا شبہ جامعہ پشاور کے موجودہ سربراہ یونیورسٹی کا درجہ بڑھانے اورطلباء کی تعداد میں اضافے کیلئے کوشاں ہیں اور یہ بھی چاہتے ہیں کہ اس مہم جوئی میں پوری یونیورسٹی بالخصوص اساتذہ کو بھی شریک کریں مگر ان کوششوں کے نتائج کا ابھی انتظار ہے۔ البتہ یہ ضرور ہواہے کہ جامعہ کے کوالٹی انہانسمنٹ سیل کے موجودہ منتظم نے اپنی ایک حالیہ جانچ رپورٹ میں یہ کہتے ہوئے پشاور یونیورسٹی کو صوبے کی درجہ اول جامعہ کا اعزاز بخش دیا ہے کہ برطانوی ایجنسی ٹائم ہائیرایجوکیشن کی جائزہ رپورٹ کے تفصیلی مطالعے اور بغور جائزے سے یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ صوبے کی درجہ اول درسگاہ پشاور یونیورسٹی ہے نہ کہ کوئی دوسری،بہرکیف یہ کوئی حیرت کی بات نہیں‘ ممکن ہے کہ بہت جلد ایک اور رینکنگ ایجنسی کی جانچ رپورٹ میں یہ اعزاز ایک ایسی یونیورسٹی کے نام نکل آئے جس کی بلوغت کے لئے بھی ابھی کافی عرصہ درکار ہو گا۔ غور طلب امر یہ ہے کہ جامعات کی درجہ بندی میں اول دوم یا سوئم قرار دینے کے لئے جس معیار کا تعین لازمی ہوتا ہے آیا ہماری یونیورسٹیاں اس پر پوری اترتی ہیں؟
یعنی یہ کہ جامعہ کی حدود اربعہ یا رقبہ کتنا ہے؟ اس میں سبزہ زاروں‘ سپورٹس گراؤنڈز اور سہولیات کی حالت کیسی ہے؟ طلباء کی تعداد کتنی ہے؟ کتنے ڈگری پروگرامات چل رہے ہیں؟ فیکلٹی میں پی ایچ ڈی ہولڈر کی تعداد کتنی ہے؟ سیشن کے دوران کتنے ریسرچ پیپرز قومی اور بین الاقوامی جرنلز میں شائع ہو رہے ہیں؟ جامعہ کے کتنے مستحق طلباء تعلیمی وظائف سے مستفید ہو رہے ہیں؟ ریسرچ کے لئے جامعہ کے بجٹ میں کتنا فنڈ مختص کیا جاتا ہے؟ امتحانات اور مالیات کے انتظام و انصرام کا معیار کیا ہے؟ بین الجامعاتی‘ صوبائی قومی اور بین الاقوامی نوعیت کی کانفرنسز‘ ورکشاپس اور سیمیناروں کے اہتمام میں یونیورسٹی کہاں کھڑی ہے؟ یہ اور ایسی اور بہت ساری شرائط ہیں جنہیں پوری کرنا لازمی ہوتا ہے۔