ہٹلر سخت شکی مزاج شخص تھا اس کو دوسری جنگ عظیم کے دوران اپنے کئی جرنیلوں نے بہت سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ اپنے لئے بیک وقت کئی جنگی محاذ نہ کھولے اور روس پر چڑھائی کرنے کاارادہ سر دست چھوڑ دے کیونکہ ایک طرف اسے مغربی اتحادی ممالک کے ساتھ اور دوسری طرف روس کے ساتھ جنگ مہنگی پڑ سکتی ہے اور یہ کہ سردیوں میں روس پر حملہ جرمنی فوجیوں کیلئے جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔ اسے نپولین کو سردیوں کے موسم میں روس پر حملے میں جو شکست فاش ہوئی تھی اس سے بھی مطلع کیا گیا پر وہ ان جرنیلوں کی وفاداری پر شک کرتا جو اس کو اس قسم کے مشورے دیتے۔جنرل رومیل کا شمار جرمنی کے مایا ناز جرنیلوں میں ہوتا تھا جب اس نے ہٹلر کی جنگی پالیسی سے اختلاف کیا تو ہٹلر نے اسے مروا دیا۔اب ذرا تازہ ترین عالمی واقعات کا تذکرہ کرتے ہیں،آخر وہی ہوا جس کے خدشات ظاہر کئے جارہے تھے، چین کی جانب سے سخت انتباہ کے باوجود امریکی کانگریس کی سپیکر نینسی پیلوسی نے تائیوان کی صدر سے ملاقات کی ہے۔ چین نے بیجنگ میں امریکی سفیر کو طلب کیا اور کہا ہے کہ واشنگٹن کو اس کی قیمت چکانی پڑے گی۔
امریکی ایوان نمائندگان کی سپیکر نینسی پیلوسی نے تائی پے میں سینئر قانون سازوں کے ساتھ ملاقات کے بعد تائیوان کی صدر سائی انگ وین سے ملاقات کی۔ وہ چھ دیگر امریکی قانون سازوں کے ساتھ منگل کو دیر گئے ایک غیر اعلانیہ دورے پر تائیوان پہنچی تھیں۔بیجنگ ان کے دورہ تائیوان کے حوالے سے امریکہ کو خبردار کرتا رہا، تاہم اس کے باوجود وہ ملائیشیا سے تائیوان پہنچیں۔ گزشتہ 25 برسوں میں تائیوان کا دورہ کرنے والی وہ امریکہ کی اعلی ترین سیاستدان ہیں۔تائیوان کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کے مطابق وہ تائیوان کی صدر کے ساتھ ظہرانے کے بعد جزیرے سے واپس چلی جائیں گی۔نینسی پیلوسی نے صدارتی محل میں اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہآج ہمارا وفد، جس پر مجھے بہت فخر ہے، تائیوان آیا اور کھلے طور پر یہ واضح کر دیا کہ ہم تائیوان کے ساتھ اپنی وابستگی کو ترک نہیں کرینگے اور ہمیں اپنی اس پائیدار دوستی پر فخر ہے۔تائیوان کی صدر تائی اینگ وین نے پیلوسی کا شکریہ ادا کیا اور انہیں تائیوان کی سب سے مخلص دوستوں میں سے ایک قرار دینے کے بعد یوکرین پر روسی حملے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس حملے کی وجہ سے آبنائے تائیوان کی سلامتی پر بھی اب دنیا بھر کی نظریں لگی ہیں۔
دوسری طرف چینی وزارت خارجہ نے کہا کہ پیلوسی کا یہ دورہ اس آبنائے تائیوان میں استحکام کو شدید نقصان پہنچا رہا ہے، جو چین اور تائیوان کے درمیان واقع ہے۔ وزارت نے منگل کو رات دیر گئے امریکی سفیر نکولس برنز کو طلب کیا اور خبردار کیا کہ واشنگٹن پیلوسی کے دورے کی قیمت ادا کریگا۔سرکاری خبر رساں ایجنسی زنہوا کے مطابق چین کے نائب وزیر خارجہ ژی فینگ نے کہا کہ یہ اقدام فطرتاً انتہائی ناگوار ہے اور اسکے نتائج بھی انتہائی سنگین برآمد ہونگے۔پیلوسی کی آمد سے پہلے ہی چین کے جنگی طیاروں نے آبنائے تائیوان کو تقسیم کرنے والے خطوط پر پروازیں کیں۔ چین کی وزارت دفاع نے یہ بھی کہا کہ فوج کو ہائی الرٹ پر رکھا گیا ہے اور وہ اس دورے کے جواب میں ٹارگیٹڈ ملٹری آپریشن شروع کریگی۔ چین نے اسکے رد عمل میں تائیوان کے خلاف بعض معاشی پابندیوں کا بھی اعلان کیا ہے‘ گزشتہ روز تائیوان کی وزارت دفاع نے بھی کہا کہ جزیرے کا محاصرہ کرنے والی چین کی فوجی مشقوں سے اس کی اہم بندرگاہوں اور شہری علاقوں کو خطرہ لاحق ہے۔ اس نے اپنے دفاع کومضبوط بنانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔
ادھر امریکہ اور انڈونیشیا کی فوجوں نے بھی گزشتہ روز انڈونیشیا کے سماٹرا جزیرے پر اپنی سالانہ مشترکہ جنگی مشقوں کا آغاز کیا ہے۔ ان مشقوں میں پہلی بار دیگر اتحادی ممالک بھی شامل ہیں، جو کہ ہند بحرالکاہل کے علاقے میں چین کی بڑھتی ہوئی سمندری سرگرمیوں کے درمیان مضبوط تعلقات قائم کرنے کا ایک اشارہ ہے۔اس برس کی مشقوں میں امریکہ، انڈونیشیا، آسٹریلیا، جاپان اور سنگاپور کے 5,000 سے زائد فوجی حصہ لے رہے ہیں، جو کہ2009میں ہونے والی مشقوں کے بعد سب سے بڑی عسکری مشقیں ہیں۔اس طرح دیکھا جائے تو امریکہ چین کے آس پاس علاقے میں چھیڑچھاڑ کے ذریعے اسے مشتعل کرنے کی جس پالیسی پر عمل پیرا ہے وہ نہ صرف خطے بلکہ پوری دنیاکے امن کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ اب آ تے ہیں موسمیاتی تبدیلیوں کی طرف کہ جس نے دنیا کو ایک نئے مسئلہ سے دوچار کر رکھا ہے۔ ماہرین نے کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے عالمی سماجی ڈھانچے کو لاحق خطرات پر زیادہ کام نہیں کیا گیا ہے، ان کے مطابق گیسوں کے اخراج کی روک تھام نہ ہونے کے باعث دنیا تباہ ہو سکتی ہے۔
سائنسدانوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ایسی وجوہات موجود ہیں جن سے عندیہ ملتا ہے کہ درجہ حرارت میں اضافہ قیامت خیز قدرتی آفات کاباعث بن سکتا ہے۔اس خطرے کو مدنظر رکھ کر تیاری شروع کرنیکی ضرورت ہے انکے مطابق درجہ حرارت میں 1.5سنٹی گریڈ کا اضافہ تشویش ناک ہو گا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ زمانہ قدیم میں کئی قوموں کے معدوم ہونے میں موسمیاتی تبدیلیوں نے بڑا کردار ادا کیا ہے اور اسی کے سبب بڑی بڑی سلطنتوں کا خاتمہ ہوا ہے گو کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے براہ راست کوئی آ فت نہیں آ تی پر اس کے ذیلی اثرات جیسے معاشی بحران اور امراض انسانوں کی تباہی کا باعث بنتے ہیں اگر اسی طرح زہریلی گیسوں کا اخراج جاری تھا تو 2070 تک دو ارب افراد اس سے متاثر ہو سکتے ہیں۔