ایک نظرانداز خدشہ

اعلیٰ تعلیمی اداروں کے حال کا بغور جائزہ لینے سے مستقبل کا اندازہ لگانا مشکل نہیں اس سے ایک خدشہ بھی جڑا ہوا ہے جو کہ بدقسمتی سے نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ لگتا ہے کہ اب شایدوہ وقت کچھ زیادہ دور نہ ہو خدانخواستہ جب یہ نظریہ سامنے آ جائے کہ جامعات کا قومی اداروں کے طور پر چلانا نہ صرف ریاست کے لئے ایک بھاری بوجھ ہے بلکہ چل بھی نہیں سکتیں لہٰذا اس کی نجکاری کی جائے اس نظرئیے اور موقف کی حمایت میں دلائل پر داز حلقے بھی جاگ اٹھیں گے اور یوں جلد یا قدرے بدیر ملکی اورغیر ملکی سرمایہ کار کمپنیوں کی خدمات حاصل کرنے کی نوبت آ جائے گی پھر کیا ہو گا؟ پہلے قدم میں تو چھانٹی یا ڈاؤن سائزنگ کا اہتمام بعد ازاں پنشن اور الاؤنسز کا خاتمہ اور ساتھ ہی مستقل ملازمت کا بوریا بستر گول ہو گا۔ اب رہا یونیورسٹی ملازمین اور ان کے متوقع رد عمل یا احتجاج کا سوال؟ تو یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ہمارے ہاں یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں اور ثابت ہے کہ احتجاج سے کچھ بھی ہاتھ نہیں آئے گا۔

 خدانخواستہ اگر ایسی صورتحال پیش آتی ہے تو یقیناً یہ موجودہ حالت میں ملازمین کی غیر ذمہ داری اور ناشکری کی سزا ہو گی‘ اس ضمن میں یہ بات بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ وفاقی حکومت جب یونیورسٹی ملازمین کو حاصل مراعات میں سے اگر کسی الاؤنسز میں قدرے کٹوتی کرتی تو ملازمین چیخ اٹھتے کہ وفاق سے ہمارا کیا کام؟ ہم تو صوبے میں ہیں اور صوبائی حکومت کے انڈر ہیں اگر صوبائی حکومت کوئی کٹوتی کر بیٹھتی تو یار لوگ اپنے آپ کو وفاقی حکومت سے جوڑنے کے لئے سڑکوں پر امڈ آتے اور یوں یہ سلسلہ عشروں سے چلا آ رہا تھا۔ یہاں تک کہ اٹھارویں آئینی ترمیم نے یونیورسٹی ملازمین کے اس ڈبل سٹینڈر یا دوہرے معیار کو ملیا میٹ کرکے رکھ دیا۔ یہ وہ وقت تھا کہ یونیورسٹی ملازمین اس معقول اور جائز موقف کے ساتھ احتجاج کے لئے اٹھ کھڑے ہوتے کہ اعلیٰ تعلیم یعنی جامعات تو صوبائی سبجیکٹ ہے ہی نہیں لہٰذا یونیورسٹیوں کو قومی اداروں کے طور پر اپنی حالت پر ہی رہنے دیجئے یا یہ کہ جب اعلیٰ تعلیم صوبوں کو دی جاتی ہے تو پھر جامعات کا بجٹ اور اعلیٰ تعلیمی کمیشن بھی صوبے میں ہونا چاہئے ساتھ ہی یہ سوال بھی اٹھا لیتے کہ اس صورت میں تنخواہ کیساتھ جڑی ہماری مراعات یا الاؤنسز کا کیا بنے گا؟

 یہ انتہائی اہم اور بنیادی سوالات تھے جیسے یونیورسٹی ملازمین نے بروقت نظر انداز کرکے اپنی غفلت کے سبب ایک بڑا موقع ضائع کر دیا اب حالت یہ ہے کہ آئینی طور پر صوبائی حکومت کی عملداری ہے اور صوبے ہی کی حکمرانی چلے گی۔ یہاں پر خود احتسابی کاایک نہایت اہم پہلو بھی ہمیشہ سے نظر انداز رہا ہے مطلب یہ کہ نہایت محنتی بلکہ حد درجہ قابل احترام اور کہنہ مشق ملازمین کبھی یہ تصور بھی نہیں کرتے کہ وہ آخر کام کتنا کرتے ہیں اور چھٹیاں کتنی؟ اس لئے توراقم ہمیشہ یہ بات کرتا چلا آیا ہے کہ جامعات ملازمین کو چاہئے کہ حاضری کے مقرر وقت سے پانچ دس منٹ پہلے پہنچ کر شکرانے کی دو رکعت نفل ادا کرنا اور چھٹی کے لئے مقررہ وقت سے پانچ مٹ بعد روانہ ہونا بہتر طریق ہو گا یہ ابھی گزشتہ کچھ عرصے سے یونیورسٹی ملازمین نے اپنے بعض الاؤنسز میں صوبائی حکومت کی طرف سے قدرے کٹوتی کیخلاف جس رد عمل کا اظہار کیا اور بالاخر حکومت کے وقتی یا جزوی اقدام سے صورتحال میں کسی حد تک ٹھہراؤ آ گیا تو کیا اس سے مسائل حل ہو گئے؟

 ہرگز نہیں تا وقتیکہ کہ ملازمین اپنے آپ کو قواعد و ضوابط اور نہایت درست اور ذمہ دارانہ انداز میں ڈیوٹی کی انجام دہی کا پابند نہ بنائیں۔ ریاست کی طرف سے اعلیٰ تعلیم کے بجٹ میں سو فیصد اضافہ نہ ہو،۔ جامعات کا بجٹ صوبوں کو منتقل نہ ہو  اور ساتھ ہی اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے زیر اہتمام تمام تر امور صوبوں کے حوالے نہ ہوں تب تک جامعات دو کشتیوں میں سوار ہوں گی اور مسائل جوں کے توں رہیں گے اور پھر یہی غیر یقینی حالت اور یہی گھمبیر مسائل ہوں گے جو کہ یونیورسٹیوں کی نجکاری کی راہ ہموار کریں گے ایسے میں پھر کوئی تالہ بندی اور دھرنا کام آئے گا اور نہ ہی لانگ مارچ اور نعرہ بازی‘ مستقبل قریب کے خدشے کے پیش نظر تو حالات کا تقاضا یہ ہے کہ حکومت‘ جامعات انتظامیہ اور ملازمین اپنے محاسبے میں مزید وقت ضائع نہ کریں۔