داخلے بڑھائیں مگر؟

جامعہ پشاور کے موجودہ سربراہ اس بات کو لیکر حیرت کا اظہار کر رہے ہیں کہ ملک کی ان درسگاہوں میں طلباء کی تعداد پشاور یونیورسٹی سے کہیں زیادہ ہے جو عمر میں ملک کی اس قدیم جامعہ سے کافی چھوٹی ہیں بلاشبہ طلباء کی تعداد بڑھانے  سے اگر ایک جانب ملک و قوم کو زیادہ تعلیم یافتہ با استعداد افرادی قوت فراہم ہونے کی راہ ہموار ہوگی تو ساتھ ہی جامعہ کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوگا کیونکہ یہ بات اپنی جگہ کہ تعلیم ریاست کی ذمہ داری اور حکومت کے ذمے عوام کا ایک بنیادی آئینی حق ہے مگر جو حقیقت ہے وہ یہ ہے کہ یہ باتیں یعنی یہ ذمہ داری اور یہ آئینی حق ہمیشہ سے کتابوں تک محدود رہا ہے اسلئے تو تعلیم کے معاملے میں ہر حکومت عوام کی مقروض اور حصول تعلیم محض خواص کیلئے ممکن رہا ہے عوام کے بس کی بات کبھی نہیں رہی اب طلباء یا داخلوں کی تعداد میں مرحلہ وار اضافہ یعنی اسے بالآخر 30 ہزار تک پہنچانے کی سوچ اگرچہ ایک مثبت نظریہ ہے مگر اس ضمن میں غور طلب بلکہ جواب طلب پہلو یہ ہے کہ آیا جامعہ کا حدود اربعہ اسکی اجازت دیتا ہے؟ تدریس و تحقیق اور تربیت کیلئے اساتذہ کی تعداد کافی ہے؟ اگر کوئی اس کمی کو پورا کرنے کی سعی کرے تو مالی وسائل دستیاب ہونگے؟ یونیورسٹی انتظامیہ اور ان کا معاون سٹاف یہ بوجھ اٹھاسکے گا؟ اگرپہلے مرحلے میں یہ تعداد پندرہ سے بیس ہزار، دوسرے میں پچیس اور تیسرے میں تیس ہزار تک پہنچانا مقصود ہوتو کلاس رومز کلاسز‘ گراؤنڈز‘ سہولیات‘ رہائش‘ صفائی ستھرائی اور سب سے زیادہ ٹریفک کو سنبھالنے اور کنٹرول کرنے کا کیا بنے گا؟ اس وقت جو صورتحال ہمارے سامنے ہے وہ تو اس امر بلکہ خدشے کی نشاندہی کرتی ہے کہ طلباء کی تعداد تیس ہزار تو کیا اگر بیس ہزار تک بھی پہنچ جائے تو پشاوریونیورسٹی میں توخیر اس وقت بھی کوئی خاص کمی نظر نہیں آرہی مگر اس صورت میں پورا کیمپس جنرل بس
 سٹینڈ میں تبدیل ہونا کوئی عجوبہ نہیں ہوگا کیونکہ تعداد بڑھانے کیساتھ تو ٹریفک کا بے قابو ہونا پک اینڈ ڈراپ کے سڑکوں کے اوپراڈوں، دھواں دار اور غیر دھواں دار رکشوں‘ ٹیکسیوں ون ویلنگ اور سکریچنگ کی بھرمار‘ ٹک ٹاکروں بھکاریوں اور سرپھروں کی تعداد میں اضافہ بھی ایک  لازمی امر ہوگا اس طرح آبادی یعنی طلباء کی تعداد میں اضافے سے لازماً کوڑا کرکٹ بھی بڑھ جائیگا اور یوں موجودہ عملے کی صورت میں اس کا صحیح طریق سے اٹھا کر ٹھکانے لگانے کا کام بھی موجودہ دو چار دن یا ہفتے کی بجائے ممکن ہے دو ہفتوں تک پہنچ جائے۔میرے نزدیک تو اس موجودہ نازک مزاج انتظامیہ‘ معاون سٹاف عملہ صفائی اور سکیورٹی گارڈ کیساتھ ساتھ پولیس کیلئے بھی پچیس یا تیس ہزار طلباء اور ان سے جڑے مسائل سے نمٹنا آسان تو کیا بالکل ناممکن ہوگا بہتر ہوگا کہ سب سے پہلے تیاریاں مکمل کرلی جائیں اور پولیس کا مکمل تعاون حاصل کرنے کیساتھ ساتھ اپنے تمام تر ٹیچنگ اور نان ٹیچنگ سٹاف میں حقوق اور فرائض کا شعور اجاگر کرکے ڈیوٹی کی انجام دہی کی عادت ڈالیں اور اس کوشش میں ٹریفک کو باقاعدہ قانون کے تحت کنٹرول کرکے درسگاہ کو بازار اور اڈہ بننے سے بچائیں تب جاکر طلباء کی تعداد میں اضافے کے بارے میں سوچنے کی باری آئے گی بصورت دیگر بدانتظامی‘ نت نئے مسائل‘ ابتری اور پشیمانی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا جامعہ کے موجودہ سٹاف میں سے کوئی بھی حقیقت پسند اور عاقبت اندیش فرد جب یونیورسٹی میں تیس ہزار طلباء کی موجودگی اور ان کیلئے ناگزیر ٹیچنگ اور نان ٹیچنگ سٹاف اور اس سے جڑے دوسرے مختلف مسائل کے بارے میں اگر قبل ازوقت کوئی رائے قائم کریگا تو وہ اس سے بالکل مختلف نہیں ہوگی جو راقم نے قائم کرلی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی اصلاح اور خود احتسابی کی طرف متوجہ ہوں ساتھ ہی نہایت ایمانداری اور احساس ذمہ داری کیساتھ یہ طے کرلیں کہ ہمارے حقوق اور فرائض کیا ہیں؟ نیز ایک درسگاہ کیسی ہونی چاہئے؟ ایسی جواس وقت ہمارے سامنے ہے؟ یا اس سے بالکل مختلف؟۔