امدادی کاروائیاں اور عوام کی توقعات

پاکستان کے تقریبا ًتمام وفاقی یونٹوں (صوبوں) کو سیلاب کی تباہ کاریوں کا سامنا ہے اور لاکھوں شہری جانی اور مالی نقصان سے دوچار ہوچکے ہیں۔نقصانات کی شدت اتنی زیادہ ہے کہ پاک فوج سمیت متعلقہ امدادی اداروں کو متعدد مشکلات اور مسائل کا سامنا ہے تاہم کوشش کی جارہی ہے کہ مزید تباہی سے ملک کو بچایا جائے اور متاثرین کی بروقت مدد کی جائے۔پی ڈی ایم اے کے مطابق سیلاب سے تقریبا ً1000 افراد جاں بحق ہوگئے ہیں جبکہ ایک عالمی رپورٹ کے مطابق مجموعی معاشی نقصان کا تخمینہ تقریبا 5 ارب ڈالرز ہے۔خیبر پختونخوا میں جو علاقے دریائے سوات، دریائے کابل اور دریائے سندھ سمیت دوسرے چھوٹے بڑے دریاؤں کی بہاو سے بری طرح متاثر ہوگئے ہیں ان میں سوات، دیر، چترال، نوشہرہ، چارسدہ، پشاور، ٹانک، ڈی آئی خان اور صوابی شامل ہیں۔ صوبے میں ہفتہ کی شام تک 270 افراد جاں بحق ہوگئے تھے جن میں 70 بچے اور 40 خواتین بھی شامل ہیں۔

تقریباً 1600 گھروں اور مکانات کو شدید نقصان پہنچا ہے جبکہ لاکھوں نقل مکانی پر مجبور ہیں۔حکام کے مطابق ملک کے 116 اضلاع کو سیلاب کی تباہ کاریوں کا سامنا ہے۔پاک فوج نے اس سنگین صورتحال میں امدادی کاروائیوں میں بنیادی کردار ادا کیا۔ آرمی چیف خود ہفتہ کے روز بلوچستان اور سندھ گئے جبکہ پشاور کے کور کمانڈر جنرل حسن اظہر حیات نے نہ صرف یہ کہ نوشہرہ کا دورہ کیا بلکہ متاثرین کی امداد اور بحالی کے کاموں کی نگرانی بھی کی۔ہفتہ کے روز جاری کردہ معلومات کے مطابق پاک فوج نے 1200 خیمے، 5500 راشن پیکس تقسیم کئے جبکہ 25000 مریضوں کو طبی سہولیات بھی فراہم کی گئیں‘ سوات، دیر اور متعدد دوسرے علاقوں میں ہیلی کاپٹر سروسز فراہم کرنے کے علاوہ ہزاروں افراد کو ریسکیو بھی کیا جبکہ مواصلات کی بحالی میں بھی بنیادی کردار ادا کیا۔صوبہ پختون خوا میں پاک فوج کے علاوہ 1122، الخدمت فاؤنڈیشن اور متعدد دوسرے نجی اداروں نے بھی امدادی سرگرمیوں میں اہم کردار ادا کیا جبکہ سابق وزیر اعظم عمران خان نے ڈی آئی خان اور اس سے اگلے روز وزیر اعلی محمود خان نے سوات کا دورہ بھی کیا۔

وفاقی حکومت نے ابتدائی طور پر متاثرین کی امداد کیلئے 38 ارب روپے جاری کئے ہیں جبکہ پاک فوج نے افسران کی سطح پر ایک مہینے کی تنخواہ جمع کرانے سمیت متعدد دوسرے اقدامات بھی کئے ہیں تاہم بحران سے نکلنے کے لیے وسائل کی دستیابی ایک بڑ چیلنج ہے جس سے نمٹنے کیلئے نہ صرف قومی اتحاد کی ضرورت ہے بلکہ صاحب ثروت لوگوں اور عالمی برادری کو بھی آگے آنا پڑے گا۔جہاں تک خیبر پختون خوا کا تعلق ہے یہاں زیادہ نقصان مختلف دریاؤں کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے والی تجاوزات اور ممنوعہ آراضی پر عمارتیں تعمیر کرنے کے غیر قانونی رویے کے باعث ہوا حالانکہ کے پی اسمبلی اس ضمن میں واضح قانون سازی کرچکی ہے اور پشاور ہائی کورٹ نے بھی متعدد بار تجاوزات کے خاتمے اور غیر قانونی تعمیرات کے خلاف فیصلے دئیے ہیں مگر باجود اس کے مسئلے کا کوئی حل نہیں نکلتا دکھائی دے رہا۔

یہ صورت حال سوات سمیت دیر، چترال، نوشہرہ اور ڈی آئی خان میں بھی دیکھنے کو ملی۔اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ تجاوزات کا راستہ روک دیا جائے اور جو لوگ تجاوزات کو قانونی قرار دینے میں ملوث رہے ہیں ان کو سخت سزائیں دی جائیں ورنہ ہر سال اسی طرح کی تباہی آتی رہے گی اور ہم جانی و مالی نقصانات سے دوچار ہوتے رہیں گے۔اس حوالے سے جو قانون سازی ہوئی ہے اس پر سختی کے ساتھ عمل درآمد کی ضرور ت ہے اور کسی کے ساتھ رعایت برتنے سے گریز ضروری ہے۔ کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ یہ مسئلہ مزید پیچیدہ ہوتا جائے گا اور مستقبل میں ان تجاوزات کے باعث زیادہ جانی اور مالی نقصان کا سامنا ہوسکتا ہے۔اس لئے ضروری ہے کہ اس ضمن میں فوری اور موثر اقداما ت کئے جائیں۔