بوٹینکل گارڈن کا دوسراجنم

نئے دور کے مہذب اور ترقی پسند انسان نے اپنے حرص وآز اور بوالہوسی کے ہاتھوں قدرتی ماحول کو کچھ اس طرح تہہ و بالا بلکہ تاخت و تاراج کرکے رکھ دیا کہ اس ماحول دشمنی کے سبب طرح طرح کے مسائل اور مصائب و آلام سے نہ صرف اپنے آپ کو بلکہ پورے معاشرے ماحول اوردنیا کودو چار کر دیا ہے‘ دنیا بھر کے ماہرین ارضیات اور موسمیات گزشتہ ایک عشرے سے مسلسل اپنی تحقیقاتی اور تجزیاتی رپورٹس شائع کرکے خبردار کر رہے ہیں کہ دنیا گرمی کی شدت میں اضافے اور اس کے نتیجے میں موسمیاتی تبدیلی کے گھمبیر چیلنج سے دو چار ہونیوالی ہے۔ ماہرین کے مطابق موسمی تغیراتی کے سبب دنیا کے جو ممالک سب سے زیادہ متاثر ہوں گے ان میں پاکستان سرفہرست ہے مگر کیا کہئے کہ ہماری حکومتیں جاگنے کے موڈ میں نہیں تھیں۔

 پاکستان جیسے زرعی ملک میں سال کے تین تین مہینوں پر محیط چار موسم ماضی کا قصہ بن گئے۔ اب خزاں بہار‘ جاڑے یا سردی کا موسم محض ڈیڑھ ڈیڑھ مہینے کے رہ گئے جبکہ گرمی آٹھ مہینے تک پہنچ کر مزید آگے بڑھ ہی ہے کیونکہ ہمارے ہاتھوں ہریالی رہی نہ ہی پھول پودے‘ باغ اور کھیت کلیان‘ چرند پرند غائب ہو گئے اس لئے کہ قدرتی ماحول جاتا رہا جبکہ ا س پر مستزاد جنگل بھی ہمارے ہاتھوں محفوظ نہیں رہے۔ نتیجتاً طویل خشک سالی یا پھر بے وقت اور بلا ضرورت نہ تھمنے والی موسلادھار بارشوں اور سیلابوں سے دو چار ہوناپڑا اور یوں روز افزاں بڑھتی ہوئی آبادی اور پیسہ بڑھانے کے حرص سے ہماری زمینی یا زرعی پیداوار میں سے جو کچھ بچا تھا وہ سیلابوں کی نذر ہو گیا جو لوگ قدرتی ماحول کی اہمیت آفادیت اور انسان اور حیوان دونوں کے لئے اس کی ضرورت سے آگاہ ہیں ان کی بات سننے والی حکومت رہی اور نہ ہی کوئی ادارہ،گرمی اتنی بڑھ گئی کہ ہمارے ذرائع آب یعنی گلیشرز کا پھٹنا بلکہ حالیہ بارشوں میں تو بادلوں کا پھٹنا بھی شروع ہو گیا جس کے نتیجے میں پہاڑی اور میدانی دونوں علاقوں کی زندگی اجیرن  ہو گئی ہے۔

 یہی وہ نئے دور کے مصائب اور چیلنجز ہیں جسے موسمیاتی تبدیل کا نام دیا گیا مگر صد افسوس کہ ہم لوگ اب بھی اسے مون سون کی بارشیں قرار دے رہے ہیں اب سوال یہ ہے کہ موسم آخر کیوں تبدیل ہو رہے ہیں؟ اس سوال کا جواب نہایت سادہ اور آسان ہے اگر ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں اور غور کر لیں کہ قدرت نے جو ماحول ہمیں عطا کیا تھا اس میں اب رہا کیا ہے؟ جنگلات بڑھنے کی بجائے گھٹنے لگے ہیں اب حالت یہ ہے کہ ہمارے پورے پورے علاقے مسلسل بارشوں اور سیلابوں کے سبب ملیا میٹ ہو رہے ہیں مگر اس سے نمٹنے اور بچاؤ میں عوام تو کیا حکومتیں بھی لاچار بیٹھی ہوئی ہیں شجر کاری کی جاتی ہے مگر سال بھر میں محض دو مرتبہ اور وہ بھی ایک آدھ پودا لگا کر اس کی میڈیا پر تشہیر کی حد تک یعنی جو کچھ کرنا چاہئے اس کا ہمیں احساس ہے اور نہ ہی ادراک یہی وجہ ہے کہ وادی پشاور کا حسین ترین اور ہریالی کے حوالے سے مثالی خطہ یونیورسٹی کیمپس بھی نت نئی عمارتوں اور درختوں کی کٹائی کے ہاتھوں اب محض پشاور کے بے ہنگم آبادی کی طرح ایک پرہجوم جبکہ شادابی سے محروم حصہ بن کر رہ گیا۔

 تقریباً دو عشرے قبل کی بات ہے کہ پشاور یونیورسٹی کے شعبہ باٹنی کے احاطہ میں اس وقت کے سکیورٹی افسرنے انتظامیہ کے کہنے چند درختوں اور پودوں کی کٹائی کی تاکہ وہاں پر بائیو ٹیکنالوجی سنٹر کی عمارت تعمیر کی جائے جس پر طلباء اور طالبات نے کچھ اس قدر سیخ پا ہو کر شدید رد عمل ظاہر کیا کہ پولیس کے ہاتھوں تھانے پہنچ گئے۔ اس وقت کے چیئرمین پروفیسر عبدالرشید خان نے جیسے چاہئے تھا طلباء کا بھرپور ساتھ دیا اور یوں یہ مسئلہ میڈیا کے ذریعے پورے ملک میں پھیل کر اقوام متحدہ تک پہنچ گیا اس وقت کے گورنر سید افتخار حسین شاہ کو جب حالات کی سنگینی کا احساس ہوا تو راتوں رات شعبہ باٹنی کی متاثرہ سائٹ کا نہ صرف معائنہ کیا بلکہ وہاں پر ہونیوالی کٹائی کو بھی روک لیا۔ 

یوں ڈاکٹر عبدالرشید اور ڈاکٹر قبلہ ایاز کی بدولت وزیراعلیٰ اکرم خان درانی نے جامعہ پشاور اور ضلع نوشہرہ کی انتظامیہ کے مابین ایک باقاعدہ معاہدے کے تحت اضا خیل پارک کو تعلیمی اور تحقیقی مقاصد کیلئے یونیورسٹی کے حوالے کر دیا۔ اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے ایک پراجیکٹ پر عملدرآمد کے نتیجے میں مذکورہ پارک کو ایک بڑے بوٹینیکل گارڈن میں تبدیل کر دیا گیا مگر یہ منصوبہ اس وقت بربادی سے دو چار ہو گیا جب سیاست بازی میں دولت کے حرص کی بھینٹ چڑھا دیا گیا بالاخر پشاور یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن کے ایک طویل مقدمے کے فیصلے میں گارڈن کو ایک بار پھر جامعہ کے حوالے کیا گیا مگر کچھ اس قدر ابتر حالت میں کہ اب وہاں پر گارڈن نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی یہاں تک کہ لوگ چار دیواری کے آہنی جنگلے بھی اکھاڑ کر لے گئے ہیں۔