قابل رشک روایت کی پاسداری

جامعہ پشاور سمیت تمام تر تعلیمی اداروں نے سیلاب زدگان کی امدادی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہوئے اپنی قابل رشک روایت کو برقرار رکھا تاہم اس میں جامعہ پشاور کا کردار قدرے زیادہ دیدنی رہا۔ اس میں جامعہ کے سکولز اور کالجز بھی شامل رہے لیکن ماضی کی طرح اس باربھی کالج آف ہوم اکنامکس کی مہم  قابل ستائش رہی اور پھر اس خاتون پروفیسر کا کیا کہیے جنہوں نے انفرادی طور پر متاثرین کے لئے اشیاء خورد و نوش فراہم کرتے ہوئے نام ظاہر نہ کرنے کی استدعا کی، یہ وہی اسلامی طریقہ ہے جو کہا گیا ہے کہ کسی ضرورت مند کی مدد کرتے ہوئے ایسے طریق سے کرو کہ دائیں ہاتھ سے دیتے وقت بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہو۔ سال2005ء کا ہولناک زلزلہ تھا یاس کے بعد سال2008 اور سال2010 کے سیلاب کی دہشت تھی یا کورونا وباء کا حملہ مطلب ہر مصیبت اور ہر آڑے وقت میں جامعات دکھی انسانیت کے جذبے سے سرشار اپنے مصیبت زدہ ہموطنوں کے ساتھ شانہ بشانہ رہیں، اس بار صرف یہ فرق دیکھنے میں آیا کہ انتظامیہ اور فیکلٹی میں فرینڈر کی چشمک کے سبب ریلیف کیمپ الگ لگ گئے۔

 دوسری جامعات کے برعکس جو کہ حکومتی عدم توجہی کے باعث مالی بحران سے دو چار ہیں پشاور یونیورسٹی نے فوری امداد کیساتھ ساتھ وزیراعظم ریلیف فنڈ کیلئے گریڈ16 تک کے ملازمین کی ایک دن جبکہ گریڈ17 اور اس سے اوپر کے ملازمین کی دو دن کی تنخواہ دینے کا فیصلہ بھی کر لیا اور یوں اپنی روایت برقرار رکھی سال2005 میں وائس چانسلر جنرل(ر) ممتاز گل کے دور میں ڈاکٹر ارباب خان آفریدی ٹیچرز ایسوسی ایشن کے صدر تھے تو ریلیف کے لئے ایک ہی مشترکہ کیمپ ٹیچرز کمیونٹی سنٹر میں قائم کیا گیا تھا اس ضمن میں جامعہ کے ایک نہایت محنتی اور قابل رشک پروفیسر حمید اللہ شاہ اپنے فوجی آفیسرز دوستوں کے ہمراہ آزاد کشمیر میں ہونیوالی تباہی کا جائزہ لیتے وقت باغ کے پہاڑوں میں ہیلی کاپٹر کے المناک حادثے میں دوستوں کے ہمراہ شہید ہو گئے تھے ڈاکٹر حمید اللہ شاہ اس وقت جیالوجی سنٹر پشاور یونیورسٹی کے ڈائریکٹرتھے اس طرح ابھی بلوچستان میں حالیہ بارشوں اور سیلاب کا جائزہ لیتے وقت لسبیلہ میں فوجی ہیلی کاپٹر کے المناک حادثہ میں ہمارے نہایت قابل ترین فوجی افسران اور جوانوں کی شہادت سے سال 2005ء کے سانحہ کی تاریخ دھرائی گئی۔

 بہر کیف سیلاب زدگان کی مدد اور پھر امداد کو ان تک پہنچانے میں جامعات کا کردار قابل دید رہا جس میں یونیورسٹی کے طلبہ اور طالبات بھی پیچھے نہیں رہیں البتہ سیاسی جماعتوں سے وابستہ یا ان کی ذیلی طلباء تنظیمیں اپنے رہنما ئے داخلہ کیمپوں میں مگن رہیں اس سلسلے میں ریڈیو پاکستان پشاور کی کوشش بھی قابل ذکر رہی جنہوں نے سٹیشن ڈائریکٹر عفت جبار کی قیادت میں کمیونٹی سنٹر پشاور یونیورسٹی آ کر پیوٹا کے ساتھ ایک روزہ مشترکہ ریلیف کیمپ کے اہتمام کیساتھ ساتھ مختلف دفاتر اور شعبہ جات میں جا کر بھی چندہ اکھٹا کیا ایسے گھمبیر حالات اور مصیبت کے دوران بعض غیر مسلم ممالک اور عالمی اداروں کی طرف سے ہماری جو مدد کی جاتی رہی ہے اس کے بارے میں ہمارے ہاں سنجیدہ اور با شعور حلقوں کے ذہن میں پایا جانے والایہ خدشہ نظر انداز نہیں کیا جا سکتا  اور پھر اگر یہ محض خدشہ نہ ہو تو یقیناً المیہ ہی ہو گا جو بیرونی امداد کو متاثرین تک پہنچانے کے بارے میں پایا جاتا ہے اس خیانت کی خبریں زلزلے کے بعد بھی آئی تھیں گزشتہ سیلابوں اور کورونا کے بعد بھی اور ممکن ہے کہ اس موجودہ مصیبت کے بعد بھی چھپی نہ رہ سکیں ایک اور تبدیلی یہ سامنے آئی کہ ہمارے صاحب اختیار اور ادارے آخر تک اس آفت کو مون سون کہتے رہے مگر بالاخر یہ حقیقت تسلیم کر لی کہ یہ مون سون نہیں بلکہ موسمیاتی تبدیلی ہے جسے ہم نے ماحول دشمنی کا ثبوت دیتے ہوئے آبیل مجھے مار کے مصداق از خود اپنے اوپر مسلط کر دی ہے دیکھتے ہیں کہ حکومت اس کے بعد کیا کرے گی؟