میدان کرکٹ کے شہسوار

متحدہ عرب امارات میں ایشیا ء کپ کرکٹ کے مقابلے آخری مرحلے میں داخل ہو گئے ہیں،پاکستان اور سری لنکا کے درمیان فائنل کھیلا جائیگا۔پاکستان اور افغانستان میں اس ایونٹ کو شاید کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ شوق اور اہتمام کے ساتھ انجوائے کیا جارہا ہے حالانکہ دونوں ممالک کو سیاسی عدم استحکام، سیلاب کی تباہ کاریوں اور بد امنی کا سامنا ہے۔ اس دلچسپی کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ دونوں ممالک کے عوام ایشیا کپ کی آڑ میں جاری مسائل اور ڈپریشن سے چند گھنٹوں یا چند دنوں کے لیے چھٹکار پانا چاہتے ہیں جو کہ ایک فطری عمل ہے۔پاکستان اور بھارت کے درمیان کھیلنے گئے میچز کو دنیا بھر میں سب سے زیادہ دلچسپی سے دیکھا گیا اور دونوں میچوں میں کانٹے دار مقابلے دیکھنے کو ملے تاہم افغانستان کی ٹیم بھی نامساعد حالات کے باوجود شایقین، کھلاڑیوں اور تبصرہ کاروں کی توجہ کا مرکز بنی رہی جس نے سری لنکا سمیت دوسری ٹیموں کو نہ صرف شکست دی بلکہ اس کے چند کھلاڑی عالمی رینکنگ کا حصہ بھی بنے، پاکستان کے خلاف سپر فور مرحلے کے میچ میں بھی آخری بال تک افغان ٹیم لڑی تاہم نسیم شاہ نے مسلسل دو چکے لگا کر جیتا ہوا میچ افغان ٹیم سے اچک لیا۔اس ایونٹ کی سب سے اہم اور دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں ٹیموں میں پشتون کھلاڑیوں کی اکثریت ہے۔یہ نوجوان کھلاڑی عالمی کرکٹ کے پورے منظر نامے پر چھا گئے ہیں اور یہ سب اپنی کارکردگی کے باعث نہ صرف سب کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں بلکہ متعدد نے بیٹنگ اور باؤلنگ میں بعض عالمی ریکارڈز بھی توڑ دیئے ہیں۔پاکستان کی ٹیم میں خیبر پختون خوا کے جو کھلاڑی شامل رہے ان کی کارکردگی شاندار رہی۔ اس وقت ان کی تعداد چھ (6) ہے۔ مطلب آدھی ٹیم ان پر مشتمل ہے، اگر چہ شہنشاہ آفریدی علالت کے باعث کھیل نہیں پائے تاہم اس کے باوجود وہ نہ صرف ٹیم کا مورال بلند کرتے باؤلرز کی رہنمائی کرتے رہے بلکہ وہ تمام ایونٹ کے دوران کمینٹیٹرز کے مثبت تبصروں کا مرکز بنے رہے۔ خیبر پختون خوا کے جو کھلاڑی اس عالمی ایونٹ کا حصہ بنے ہوئے ہیں ان میں فخر زمان، محمد رضوان، افتخار احمد، خوشدل خان اور نسیم شاہ اور محمد نواز شامل ہیں۔ ان سب کا تعلق صوبے کے مختلف علاقوں سے ہے تاہم خوشگوار حیرت کی بات یہ ہے کہ اکثر دیہی علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔محمد رضوان کو اس میگا ایونٹ میں ٹی ٹونٹی کی رینکنگ میں ایک بیٹسمین کی حیثیت سے ٹاپ پوزیشن حاصل کرنے والے کھلاڑی کا اعزاز حاصل ہوا ہے جو کہ اس سے قبل پاکستان کے کپتان بابر اعظم کے پاس تھا۔ اس اعزاز پر بجا طور فخر کیا جاسکتا ہے۔نوجوان کھلاڑی نسیم شاہ کو اس کی جارحانہ باؤلنگ کی وجہ سے کمینٹیٹرز عالمی سطح پر ایک اہم اضافہ قرار دے رہے ہیں جنھوں نے انتہائی شاندار کھیل پیش کرکے سب کی توجہ حاصل کی اور بھارت کے نامور بیٹسمین بھی گھبراہٹ کا شکار دکھائی دئیے، یہ الگ بات ہے کہ اب اس ٹورنامنٹ میں اس کی یادگار کارکردگی افغانستان کے خلاف لگائے کئے دو فیصلہ کن چھکے سمجھے جائیں گے۔فخر زمان نے ہر میچ میں مڈل آرڈر کو سنبھالے رکھا جبکہ خوشدل خان اور افتخار احمد نے ٹیم کو اپنی خوداعتمادی کے باعث متعدد بار نہ صرف بحران سے نکالا بلکہ جیت میں بھی بنیادی کردار ادا کیا۔دوسری طرف افغانستان کی اب تک کی کامیابیوں میں جن کھلاڑیوں نے بنیادی کردار ادا کیا ان میں محمد نبی، مجیب الرحمن اور مایہ ناز باولر راشد خان سرفہرست ہیں۔ ان کھلاڑیوں نے متعدد بار سینئر ٹیموں کے اہم کھلاڑیوں کے اوسان خطا کرکے دنیا کو اپنی کارکردگی سے پیغام دیا کہ اب کرکٹ میں ان کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین اس ٹیم کو مستقبل کے ایک کامیاب اور خطرناک سکواڈ کے طور پر بہت سنجیدہ لے رہے ہیں۔اس تمام صورتحال یا کارکردگی سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ یہ مٹی نہ صرف ہر شعبے میں بہت زرخیز ہے بلکہ یہاں نامساعد حالات کے باوجود آگے بڑھنے کا عزم بھی موجود ہے۔ان کھلاڑیوں نے اپنی کارکردگی اور رویہ سے اس عالمی تاثر یا پروپیگنڈہ کو بھی غلط ثابت کردیا ہے کہ اس بیلٹ کے عوام تشدد پسند یا انتہا پسند ہیں۔یہ بات انتہائی خوش آئند ہے کہ اس علاقے کے کھلاڑی دوسرے کھیلوں میں بھی نہ صرف یہ کہ بہت آگے ہیں بلکہ متعدد کے پاس عالمی اعزازات بھی ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے دوسرے باصلاحیت نوجوانوں کی بھرپور سرپرستی اور حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ اس خطے کے بارے میں موجود منفی تاثر کا خاتمہ کیا جائے اور دنیا پر ثابت کیا جاسکے کہ یہ مٹی واقعی بہت زرخیز ہے۔