اس امر میں تو شک و شبہ اور اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں کہ کسی بھی قوم کی حالت اس وقت تک تبدیل نہیں ہو سکتی جب تک و ہ خود مثبت تبدیلی کیلئے سعی نہ کرے۔ بلا شبہ موسمی تغیرات نے انسانی بقاء کوایک بڑ ے چیلنج سے دو چار کر دیا ہے مگر باعث حیرت امر یہ ہے کہ اب بھی ہم لوگ پاکستان میں برپا ہونے والی اس حالیہ تباہی کو مون سون کا نام دے رہے ہیں ہمارے پشاور کو پھولوں اور باغات کاشہر کہا جاتا رہا مگر اب حالت یہ ہے کہ ملک کے آلودہ شہروں میں تیسرے نمبر پر ہے اس کی وجوہات بالکل واضح اور ہمارے سامنے ہیں ابھی تین عشرے قبل تک پشاور شہر اور مضافات کے دیہات میں ایک واضح حد بندی اور فرق ہوا کرتا تھا اور شہر اور دیہات کے درمیان والے علاقے باغات‘ درختوں اور زرعی زمین میں لہراتی فصلوں سے ہرے بھرے اور ہریالے نظر آتے تھے مگر وہی شہر دھوئیں شورو غل بے ہنگم آبادی غیر ضروری اور ناگزیرٹرانسپورٹ بلکہ ناقابل استعمال گاڑیوں اورکوڑا کرکٹ کی نذر ہو کر انسانی بود و باش کے لئے انتہائی غیر موزوں ہو گیا ہے‘ شہر اور دیہات کے درمیان فاصلہ اور فرق ختم ہو کر دیہات پر بھی یہی ناگفتہ بہ حالت مسلط ہوگئی ہے.
زرعی زمینی سکڑ کربرائے نام رہ گئی کیونکہ اس کی جگہ ورکشاپوں پلازوں‘ بازاروں اور اڈوں نے لے لی‘باغ اور فصلیں قصہ پارینہ بن گئے اور یوں شہر اور مضافات کے باسی شور دھوئیں‘ زہریلے مادوں آلودہ فضا اور آلودہ پانی کے رحم و کرم پر رہ گئے‘ یہی حالت پورے ملک کی ہے زراعت فوڈ سکیورٹی اور کلائمیٹ چیلنج یعنی موسمیاتی تبدیلی کی وزارتیں قائم ہیں بجٹ مختص کیا جاتا ہے وزراء‘ افسران اور سینکڑوں اہلکار مامور ہیں مگر نتیجہ صفر اور حالت دن بہ دن ابتر ہوتی جا رہی ہے‘ ایسے میں تعلیمی اداروں بالخصوص جامعات کی طرف دیکھنا ایک قدرتی امر ہو گاکیونکہ ان کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ قوم کی تربیت اور تعمیر کا فریضہ انجام دے رہی ہیں یہاں پر بھی سال میں شجر کاری کے دو موسم یا مہمات آتی ہیں مگر اب یہ حساب کتاب اور احتساب کون کرے گا کہ رواں سال بہار یہ اور مون سون کی مہمات میں جامعات نے کتنے پودے لگائے.
کتنے پودوں کی دیکھ بھال ہو گی اور کتنے سوکھ کر صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گے نیز ان مہمات میں وائس چانسلر کے انفرادی پودوں کے علاوہ اساتذہ افسران طلباو طالبات اور ملازمین نے کس حد تک حصہ لیا؟ جبکہ جواب طلب سوال یہ بھی ہے کہ اگر سب نے انسانیت کی فلاح اوربھلائی کے جذبے سے اپنا فریضہ انجام دیا ہو تو یونیورسٹی میں پھول پودوں اورپھولدار پھلدار اورسایہ دار پودوں کی بدولت ہریالی میں کتنا اضافہ ہوا؟ اگر جواب نفی میں ہو تو بات ہی واضح ہو جائے گی کہ موسمیاتی تبدیلی اوراس کے سبب ہونیوالی بربادی ہی ہمارا مقدر رہے گی جب قومی تعمیر کے ذمہ دار اداروں یعنی جامعات کی یہ حالت ہو تو پھر دیکھنا ہو گاکہ قوم کہاں کھڑی ہے؟ اگر ہمارا مشاہدہ غلط نہ ہو تو اس تلخ حقیقت کی نشاندہی میں مجھے قطعی طور پر کسی عار کااحساس نہیں ہو رہا کہ قدرتی ماحول کی بحالی کی بدولت موسمیات تبدیلی کے سامنے بند باندھنے کے فریضے کی انجام دہی میں حکومتوں اور ملک کے دوسرے اداروں اور حلقوں کی طرح ہمارے تعلیمی ادارے بھی یکسر ناکام نظر آ رہے ہیں لہٰذا ہماری مخلصانہ رائے یہ ہو گی کہ پاکستان اور یہاں کے باسی موسمیاتی تبدیلی کی شکل میں جس گھمبیر چیلنج سے دو چار ہیں اس سے نمٹنے اور ملک و قوم کا مستقبل محفوظ بنانے میں تعلیمی اداروں کو صف اول میں کھڑا ہونا ہوگا اور اس جدوجہد میں سب سے پہلے اپنے اردگرد کے قریبی ماحول میں قدرتی ماحول کو بحال کرنے کی سعی لازمی ہو گی تاکہ یہ دس بیس فیصد جو چرند پرندے باقی ہیں یہ بھی معدوم نہ ہوں اگر حکومت نے ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے اور قدرتی ماحول کی بحالی اور بقاء کیلئے ایک واضح ٹھوس اور مربوط پالیسی اوراس پر سختی سے عملدرآمد کی ذمہ داری پوری نہیں کی تو پھر اس ملک و قوم کا جو حشر ہو گا اس کے بارے میں ابھی سے کچھ کہنا قابل از وقت ہو گا کیونکہ گلیشئرز اور بادلوں کاپھٹناکوئی معمولی تبدیلی نہیں بلکہ ایک بہت بڑے خطرے کی گھنٹی ہے۔