امن سب کی فطری ضرورت

امن انسان کی فطری ضرورت ہے کیونکہ اس کے بغیر نہ تو پرسکون زندگی کا تصور ممکن ہے اور نہ ہی کوئی معاشرہ سماجی اور اقتصادی طور پر آگے بڑھ سکتا ہے‘پاکستان بالعموم اور خیبر پختون خوا بالخصوص بوجوہ بدقسمتی سے گزشتہ کئی برسوں سے بد امنی کی لپیٹ میں رہا جس کی سب سے بڑی وجہ افغانستان کی صورتحال اور اس کے نتیجے میں ہونیوالی عالمی اور علاقائی پراکسیز ہیں کیونکہ پاکستان ہر دور میں افغانستان کے حالات سے متاثر ہوتا آیا ہے اور متاثر ہوتا رہے گا‘یہ کہنا مناسب رویہ ہر گز نہیں کہ اس تمام صورتحال کو محض دونوں ممالک کے اندرونی معاملات یا کمزوریوں کا نتیجہ قرار دیا جائے‘یہ علاقہ بوجوہ عالمی اور علاقائی جنگوں اور کشیدگی کا مرکز بنا رہا ہے اور اب بھی اس خطے کو انہی اسباب کا سامنا ہے‘دونوں ممالک روس، چین، ایران اور بھارت جیسے اہم ممالک کے درمیان واقع ہیں جبکہ امریکہ اور اس سے قبل برطانیہ نے اس علاقے میں سابق سوویت یونین کے خلاف اس علاقے کو استعمال کرنے کی پالیسی اپنائی تھی۔

وہ دوسری جنگ عظیم کے بعد بھی جاری رہی اور اب چین کی صورت میں یہ ایک نئے جغرافیائی اور اقتصادی طاقت کے ابھرنے سے ایک اور کشیدگی سامنے آ تی دکھائی دینے لگی ہے یہ خطہ کبھی کسی لمبے عرصے تک پرامن نہیں رہا‘نائن الیون کے بعد خطرات میں مزید اضافہ ہوا اور پاکستان مختلف نوعیت کے چیلنجز سے دوچار ہوا‘ان چیلنجز نے پاکستان کی سیاست، معیشت اورسکیورٹی کے علاوہ اس کی معاشرت کو بھی بہت متاثر کیا‘چونکہ خیبر پختون خوا اور بلوچستان کی سرحدیں افغانستان سے لگی ہوئی ہیں اس لئے یہ علاقہ پاکستان کے دوسرے علاقوں کے مقابلے میں اس صورتحال سے زیادہ متاثر ہوا جو کہ ایک فطری عمل ہے تاہم تشویش ناک بات یہ ہے کہ افغانستان سے امریکی، نیٹو انخلاء کے باوجود مجموعی حالات میں وہ مثبت تبدیلیاں سامنے نہیں آئی ہیں جن کی توقع کی جارہی تھی‘اس کے متعدد اسباب ہوسکتے ہیں جس میں سرفہرست افغانستان میں از سر نو پراکسیز کی نئی صف بندی ہے۔

غالباً اسی کا نتیجہ ہے کہ پاکستان نے ممکنہ نتائج سے بچنے کے لئے افغان حکومت کی خواہش پر تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ ایک مذاکراتی عمل کا آغاز کیا جس پر اب بھی کام جاری ہے تاکہ تھریٹ لیول کو کم کیا جائے‘تحریک طالبان پاکستان نے اس دوران سیز فائر کا اعلان کیا جس پر ان کے بقول وہ اب بھی عمل پیرا ہے تاہم ایک رپورٹ کے مطابق خیبر پختون خوا کو گزشتہ تین ماہ کے عرصے میں تقریباً 300 بار مختلف نوعیت کے حملوں کا نشانہ بنایا گیا‘اکثر حملوں سے تحریک طالبان پاکستان نے لاتعلقی کا اظہار کیا جو کہ اس جانب اشارہ ہے کہ پراکسیز پوری پلاننگ کے تحت باقاعدہ حملوں کی صورت میں مصروف عمل ہیں‘داعش اور اس کے پس پردہ اتحادیوں کی شکل میں دونوں ممالک کو ایک خطرناک چیلنج کا سامنا ہے اور اس نوعیت کی اطلاعات بھی موجود ہیں کہ پاکستانی اور افغان طالبان کے بے شمار ہارڈ کور جنگجوؤں نے بوجوہ داعش کو جوائن کرلیا ہے۔

رواں مہینے پشاور سمیت سوات، دیر، کوہاٹ، ٹانک، ڈیرہ اسماعیل خان، بنوں، کرم، باجوڑ، شمالی، جنوبی وزیرستان اور خیبر میں حملوں کی تعداد اور بعض دیگر سرگرمیوں میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے جس نے عوام اور سیاسی حلقوں کی پریشانی ایک قدرتی بات ہے جبکہ اس دوران سرحد پار سے بھی پاکستانی فوج پر متعدد حملے کرائے گئے جس کے جواب میں سخت ردعمل کے علاوہ موثر کاروائی کی گئی تاہم اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ چیلنجز میں مزید اضافہ ہوگیا ہے اور ان سے نمٹنے کیلئے ابھی ایک نئی حکمت عملی کی اشد ضرورت ہے‘ان چیلنجز سے نمٹنے کیلئے یہ لازمی ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز ایک صفحے پر ہوں اور عوام کی حمایت بھی میسر ہو تاکہ صورتحال پر قابو پایا جائے اور اس مسئلے کو روایتی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ سے بچاکر قومی ایشو اور چیلنج سمجھ کر پائیدار امن کی فطری ضرورت کے تناظر میں حل کیا جائے۔