سیاست میں مخالفت کی جگہ۔۔۔۔



یہ بات نہ صرف قابل تشویش بلکہ قابل اعتراض بھی ہے کہ سیاسی جماعتوں کے قائدین اور کارکنان سیاسی مخالفت میں دلائل کی بجائے سر عام انتہائی سطحی اور کھبی کبھار بداخلاقی کے زمرے میں آنیوالی زبان استعمال کررہے ہیں. اس رویے کے باعث معاشرے میں تلخی اور کشیدگی کا جو ماحول فروغ پا چکا ہے اس کے مستقبل میں انتہائی منفی اثرات مرتب ہوں گے تاہم قائدین کو ان اثرات کا ادراک نہیں ہورہا جو اور بھی خطرناک بات ہے‘سیاست میں ذاتیات نہیں ہوتیں بلکہ ایشوز کی بنیاد پر اخلاقیات کے دائرے میں رہ کر مخالفت کی جاتی ہے تاہم چند برسوں سے پاکستان میں ذاتیات کی بنیاد پر سیاست چلنے لگی ہے. مثال کے طور پر ہفتہ رفتہ کے دوران تین اہم پارٹیوں کے قائدین نے ایکدوسرے کے نام لیکر جو القابات دیے وہ قابل تشویش ہے‘چارسدہ میں عمران خان نے اپنی تقریر کے دوران مولانا فضل الرحمن اور ایمل ولی خان کو ایسے ناموں سے پکارا جن کو ضبط تحریر میں لانا بھی بداخلاقی کے زمرے میں آتا ہے‘ اس کے جواب میں مولانا فضل الرحمن اور ایمل ولی خان نے جو لہجہ استعمال کیا اور ایک نے عمران خان کو جس نام سے تشبیہ دی وہ بھی لکھا نہیں جاسکتا. اس سے قبل ایمل ولی خان نے ایک تقریر میں عمران خان کے دورہ چارسدہ کے اعلان پر جو کلمات ادا کئے وہ بھی ناقابل بیان ہیں‘بات یہیں پر ختم ہوتی تو شاید نظر انداز کی جاسکتی تحریک انصاف کے بعض مقررین نے چارسدہ کے جلسے میں باچا خان جیسی شخصیت پر بھی رائے زنی کرکے ان کو پاکستان مخالف قرار دیاحالانکہ اس صوبے کی یہ روایت رہی ہے کہ یہاں بزرگوں اور مرحومین سے متعلق یا تو اچھے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں یا بات ہی نہیں کی جاتی. یہ بداحتیاطی ایک ضمنی الیکشن کی مہم کے دوران بار بار کی جاتی آرہی ہے حالانکہ چاہیے تو یہ تھا کہ عمران خان صاحب چارسدہ کے جلسے میں اپنی صوبائی حکومت کی کارکردگی، سیلاب زدگان کی امداد اور دوسرے اقدامات پر بات کرتے اور جواب میں ایمل ولی خان ایک مخالف امیدوار کے طور پر اپنی پارٹی اور اس کی سابقہ حکومت کی کارکردگی اور منشور پر بحث کرتے‘مگر یہاں الزامات کا میچ چلتا رہا اور اس میچ میں کارکن بھی کود پڑے جنھوں نے ایک دوسرے کو عجیب و غریب قسم کے ناموں اور القابات سے نوازا‘اس تمام صورتحال کا ایک اور خطرناک پہلو یہ ہے کہ اس ماحول میں بعض اہم قومی اداروں کو بھی مشکوک اور متنازعہ بنانے کی مسلسل کوشش ہو رہی ہے جس سے نہ صرف ان اداروں کی ساکھ اور مورال جیسی چیزیں متاثر ہوتی ہیں بلکہ کشیدگی میں مزید اضافہ کا راستہ بھی ہموار ہوتا ہے اور اس کے اثرات پورے سماج کو اپنی لپیٹ میں لیتے ہیں‘مثال کے طور پر سوات میں منعقدہ بعض احتجاجی مظاہروں کے دوران بعض عناصر نے پاک فوج کے خلاف غیر ضروری نعرے لگائے حالانکہ سوات سیلاب اور حالیہ بدامنی کے دوران آرمی چیف اور کورکمانڈر پشاور سمیت تمام فوجی اداروں کی دلچسپی اور کارکردگی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے مقابلے میں زیادہ بہتر رہی ہیں اور عوام اس کا اعتراف بھی کرتے ہیں‘دوسری جانب امن و امان کی ذمہ داری بھی سول انتظامیہ کے زمرے میں آتی ہے مگر بعض لوگوں نے اس کے باوجود فوج کو اس میں کھینچنے کی کوشش کی کہ کورکمانڈر خود سوات گئے اور وہاں ایک جرگہ سے خطاب کے دوران انہوں نے سیکورٹی کیلئے تمام درکار اقدامات کی یقین دہانی بھی کرائی‘اسی طرح نئے آرمی چیف کی تعیناتی کیلئے روٹین کی کارروائی کو بھی غیر ضروری طور پر اچھالنے کی کوشش کرتے ہوئے متنازعہ بنانے کی مہم چلائی گئی حالانکہ ملک کو سیلاب کے بدترین اثرات اور معاشی بحران جیسے چیلنجز کا سامنا ہے اور اس موقع پر تمام سیاسی جماعتوں اور ریاستی اداروں کو ایک پیج پر ہونا چاہیے تھا۔