اہم عالمی اور ملکی امور 

وزیراعظم کی یہ تجویز بڑی معقول ہے کہ سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ سیلاب زدگان کی بحالی کیلئے ڈونرز کانفرنس کا فوری طور پر انعقاد کرائیں تاکہ سیلاب سے متاثرہ لوگ جلد مشکل سے نکل آئیں۔ ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ دنیا کو موسمیاتی تبدیلی کے پاکستان پر اثرات سے زیادہ سے زیادہ آگاہ کیا جائے۔ وطن عزیز میں موسمیاتی تبدیلی کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ ابھی سے شمالی علاقہ جات میں سردی نے کروٹ لینا شروع کر دی ہے۔ بابو سر ٹاپ پر برف باری شروع ہو گئی ہے اور اب تک دو انچ تک برف پڑ چکی ہے۔ اندیشہ یہ ہے کہ امسال وطن عزیز میں سخت سردی پڑ سکتی ہے۔قصہ کوتاہ اس مشکل سے نکلنے کیلئے ہمیں جہاں وقتی اقدامات کرنا ہوں گے، دوسری طرف ان تمام احتیاطی تدابیر کو بھی اپنانا ہوگا کہ جن سے مستقبل میں اس قسم کی تباہی کو روکا یا کم کیا جا سکتا ہے۔

 بیرونی ممالک سے سیلاب زدگان کی بحالی کے واسطے جو بھی امداد آئی ہے یا آ رہی ہے اس کی درست تقسیم کے لئے ایک فول پروف میکینیزم کو فوراً وضع کرنا ضروری ہے تاکہ بعد میں اس ضمن میں کوئی سکینڈل نہ بنے۔ نہ جانے ہمیں اس آفت سے باہر نکلنے میں اور کتنا وقت لگے، ڈاکٹروں کے مطابق ملک میں کئی قسم کی وبائیں پھوٹ سکتی ہیں۔ ڈینگی نے پھر سر اٹھا لیاہے، خوراک کی کمی کا بحران ہمارے سر پر منڈلا رہا ہے۔ہماری معیشت ڈانواں ڈول ہو چکی ہے۔امریکہ یوکرین کی ہلہ شیری کرنے سے باز نہیں ا ٓرہا۔ اگلے روز اس نے یوکرائن کیلے 45 کروڑ ڈالر کی خطیر امدادی رقم منظور کی ہے۔ وہ اسی طرح تائیوان کی بھی چین کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے کیلے مالی اور عسکری امداد کر رہا ہے۔

 چین اور روس دونوں اس کی آنکھوں میں کھٹکتے ہیں جس وقت سوویت یونین اپنے عروج پر تھا تو اس دوران روس کے موجودہ صدر پیوٹن سوویت یونین کی خفیہ ایجنسی کے جے بی کے سر براہ تھے اور ان کو امریکہ کی ان سازشوں کا فرسٹ ہینڈ علم تھا۔ جن کے تحت اس نے سوویت یونین کو ٹکڑے کیا اور وسطی ایشیا کی کئی ریاستوں کو سوویت یونین سے جدا کر کے آزاد ممالک کی حیثیت سے ان کے قیام میں ان کی مدد کی۔ پیوٹن آج بھی وسطی ایشیا کے کئی ممالک کے سوویت یونین کو خیر آباد کہنے پر روس کو جو زخم لگے ہیں ان کو بھولا نہیں ہے اور وہ امریکہ سے اس سازش کا انتقام لینے پر تلا ہواہے۔

 فطرتا ًوہ ایک سخت گیر قسم کا انسان ہے اور وہ ان تمام روسیوں کا ہیرو ہے کہ جو امریکہ کو سوویت یونین توڑنے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ روس اور یوکرین کے تنازعے کی جہاں اور کئی وجوہات ہو سکتی ہیں پر ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یوکرین روس سے خود سر ہو ا تھا اور اسی وجہ سے پیوٹن اسے سبق سکھانا چاہتا تھا۔ بعد میں امریکہ کی یوکرین کی کھلی حمایت سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ اس کی حکومت روس سے دشمنی امریکہ کے ایما پر کر رہی تھی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلاہے کہ روس نے یوکرین کے اہم ترین علاقوں پر قبضہ کر لیا اور اب اس نے ان علاقوں کو روس میں ضم کرنے کیلئے ریفرنڈم اور پھر ان علاقوں کی بھر پورحفاظت کا اعلان کر چکا ہے۔