سیلاب کی تباہ کاریاں اور اب؟

موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات بڑھتے رہے، کراچی لاہور اور پشاور دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شامل ہوتے رہے‘ ہمارے ہاتھوں آبی اور جنگلی حیات اس قدر متاثر ہوتی رہی کہ دریاؤں میں آلودہ زہریلے پانی اور پلاسٹک شامل ہونے سے مچھلیوں میں نر اور مادے کا فرق جاتارہا‘ہماری جامعات اور قومی اور عالمی ماہرین اپنی تحقیق سے حکومتوں کو آگاہ کرتے رہے مگر صدر افسوس کہ ہماری آنکھوں پر حرص زر کے پردے پڑے رہے اور یوں زرعی زمین جاتی رہی‘ کھیت کھلیان‘ ہریالی‘ باغات اور جنگلات ختم ہوتے رہے۔جنگلی اور آبی حیات جانور اور چرند پرند غائب ہوتے رہے مگر ایک بار پھر افسوس کہ ہم پلازوں،کالونیوں  اور ٹرانسپورٹ کے بڑھانے میں مگن رہے‘ نتیجاً پانی مٹی اور فضاآلودہ سے آلودہ تر ہونے میں کوئی کسر باقی نہیں رہی۔

یہی وہ انسان تھا جس کے ہاتھوں اوپر اوزون بھی اس حد تک متاثر ہوئی کہ بادلوں کا پھٹنا اور ایک دریا کی مقدار کے برابر پانی یک لخت زمین پر گرنا شروع ہوا۔گلیشئرز کا کیا کہیے؟ یہی ہماری آبی ضرورت کا سب سے بڑا اور واحد قدرتی ذریعہ تھا جو کہ اب درجہ حرارت یا گرمی بڑھنے سے تالابوں میں تبدیل ہو کر سیلاب کا سب سے بڑا سبب بن گئے ہیں۔سیلاب آیا اور کروڑوں کی زندگی اور مال و متاع کو ملیا میٹ کر گیا اور یوں بالآخر ہم نے یہ حقیقت تسلیم کر لی کہ یہ مون سون نہیں بلکہ موسمیاتی تبدیلی ہے اب سوال یہ ہے کہ موسیماتی تبدیلی یک لخت آئی؟ متاثرین کے بچاؤ‘ امداد اور ایک حد تک بحالی یا آباد کاری کے بعد مستقبل میں بلکہ ہر سال اس تباہ کاری سے نمٹنے اور اپنے آپ کو تباہی سے بچانے کے لئے ہماری حکمت عملی اور لائحہ عمل کیا ہو گا؟ آیا موسمیاتی تبدیلی کی وجوہات و عوامل کو کم از کم روکنے اور قدرتی ماحول کی بحالی کی سعی کریں گے یا ہر سال دنیا سے امداد کی اپیلیں کریں گے؟

 کہتے ہیں کہ دنیا 157 ممالک پر مشتمل ہے اور قدرتی آفات سے ہر چھوٹے بڑے ملک کو دوچار ہونا پڑتا ہے۔ زلزلے‘ سیلاب وبائیں‘ قحط سالی اور جنگلوں میں آگ لگنے کے واقعات آج کی دنیا کا معمول بن گئے ہیں اور یہ سب کچھ انسان کے ہاتھوں ہو رہا ہے‘ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ان ممالک میں بہت ہی چھوٹے اور کمزور چند ممالک کو چھوڑ کر باقی ماندہ کوئی ملک بھی آفت اور مصیبت کے وقت امداد کی اپیل نہیں کر رہا بلکہ اکثر ممالک براہ راست یا اقوام متحدہ کے ذریعے امداد بہم پہنچاتے ہیں یہی طریق ہمارے معاملے میں بھی یہاں تک اپنایا گیا کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتوینو گوتریس نے ازراہ ہمدری پاکستان کا دو روزہ دورہ بھی کیا عالمی امداد آگئی جبکہ ہنوز یہ سلسلہ جاری رہے لیکن فرق شاید پاکستان سمیت پوری دنیا نے محسوس کیا ہو کہ ہم امداد کے لئے اپیلیں کرتے رہے۔

اب اہم جواب طلب سوال یہ ہے کہ امداد تو آگئی اور اقوام متحدہ کے سربراہ کی اپیل پر مزیدبھی آ جائے گی مگر اسے تباہ حال سیلاب زدگان تک پہنچانے اور ان کی بحالی کا کیا ہو گا؟ کیونکہ اس سے قبل آنیوالی آفات کے متاثرین کیلئے آنے والی امداد کے بارے میں لوگوں بالخصوص آفت زدگان میں  پائے جانیوالے خدشات شکوک و شبہات اور ابہام کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا‘ سیلابوں کی تباہ کاریوں سے محض بلوچستان سندھ اور جنوبی پنجاب متاثر نہیں ہوئے بلکہ پورا ملک اس کی لپیٹ میں رہا جس میں خیبر پختونخوا کے شمالی علاقہ جات سمیت سوات‘دیر‘ کوہستان‘ ٹانک‘ ڈی آئی خان‘ چارسدہ‘ نوشہرہ اور شبقدر کے علاقے بھی کچھ کم متاثر نہیں ہوئے۔

اس لئے تو بعض سنجیدہ حلقوں کا یہ سوال بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ اس تباہی کو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے مشاہدے میں کیوں نہیں لایا گیا؟ بہر کیف اس تباہی سے دو تلخ حقائق بھی کھل کر سامنے آئے، ایک یہ کہ نہایت غلط طور پر موسمیاتی تبدیلی کو مون سون کہا جاتا رہا اور دوسری یہ کہ جب اس بڑی آفت اور گھمبیر صورتحال میں بھی ہم ایک پیج پر آنے کی بجائے سیاست بازی اور حصول اقتدار کی کوششوں میں لگے رہے۔