موسم بہار کی شجرکاری حسب معمول بلکہ حسب روایت ہر سال15 فروری سے شروع ہو کر 31مارچ تک کی جاتی رہی ہے یونیورسٹی کیمپس میں جو ہریالی اس وقت نظر آرہی ہے تو یہ درحقیقت رفتگان کا عطیہ اور صدقہ جاریہ ہے ورنہ موجودہ لوگوں کی شجرکاری تو سال میں دو مرتبہ محض ایک آدھ پودا لگا کر تصویر اتارنے تک ایک فیشن بن گئی ہے یہی وجہ ہے کہ وادی پشاور اور یونیورسٹی کیمپس میں درجہ حرارت کا فرق رفتہ رفتہ ختم ہو رہاہے اسی کیساتھ ساتھ ناگزیر اور غیر ضروری بلکہ بلاجواز گاڑیوں کا ہجوم بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے مطلب یہ کہ یونیورسٹی کیمپس میں بھی موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا بہت جلد محسوس ہونا کوئی انہونی بات نہیں ہوگی اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے ماحولیات و موسمیاتی تبدیلی کی رپورٹوں کے مطابق موسمیاتی تبدیلی سے دنیا کے جو ممالک زیادہ متاثر ہونگے ان میں دوسرے چند ایک ممالک کیساتھ ساتھ پاکستان بھی سرفہرست ہے دنیا بھر کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ قدرتی ماحول کو کس حد تک برقرار رکھنے کیلئے لازمی ہے کہ ہر ملک کے کل حدود اربعہ کا کم از کم25فیصد جنگلات یعنی پھول‘ پودے‘ درخت اور سبزہ زاروں کیلئے مختص ہو‘ اب اسے بدقسمتی کہہ دیں یا بے حسی یا غیر ذمہ داری قراردیں کہ پاکستان میں یہ رقبہ تاحال بمشکل دو فیصد بنتا ہے ہمارے ہاں موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کیلئے ایک الگ وزارت یا ڈویژن بھی قائم ہے جبکہ دیگر مہمات کیساتھ ساتھ دو سال مون سون اور بہاریہ شجرکاری کے نام سے بھی مہمات کا اہتمام کیا جاتا ہے مگر یہ محض دکھاوے کی حد تک ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلی بڑی تیزی سے ہمارے ماحول میں اپنے پنجے گاڑ رہی ہے ان اثرات سے پشاوریونیورسٹی کیمپس جیسے مقامات جس کا ماحول ہریالی‘ صفائی ستھرائی اور کم ٹریفک جبکہ باقاعدہ اور منظم ٹریفک کے سبب قدرے محفوظ تھا بدقسمتی بلکہ بدانتظامی اور غیر ذمہ داری کے باعث اب نہیں رہا جس طرح پھولوں کا شہر پشاور اب ٹریفک کے اژدھام اور کوڑا کرکٹ کے حوالے ہے بالکل اسی طرح یونیورسٹی کیمپس بھی اب ایک بازار یا کم از کم جی ٹی روڈ کا منظر پیش کر رہا ہے مانا کہ یونیورسٹی کیمپس کے بعض تعلیمی اداروں نے غیر متعلقہ
گاڑیوں کیلئے اپنے گیٹ بند کرکے اپنی دانست میں خود کو محفوظ بنالیا ہے مگر جو منفی اثرات مادر علمی پر مرتب ہو رہے ہیں اس سے اسلامیہ کالج‘ انجینئرنگ یونیورسٹی اور زرعی یونیورسٹی بھی محفوظ نہیں رہ سکتی اب دیکھنا یہ ہے کہ شجرکاری میں یونیورسٹی کیمپس کے تعلیمی اداروں کا کردار اور حصہ کتنا ہوگا؟ محض دو تین پودے لگا کر اس کی تشہیرپر اکتفا کیا جائے گا؟ یا حقیقی معنوں میں موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات اور ماحول کو مزید ابتری سے بچانے کا احساس بھی عملاً سامنے آئے گا؟ ویسے بعض معاملہ فہم اور سیانے لوگوں کی یہ رائے قابل غور لگتی ہے کہ تعلیمی بورڈ کے بعد حکومتی سطح پر ٹاپ ٹین کی نئی روایت کی جو داغ بیل ڈالی گئی ہے یہی تجربہ شجرکاری اور قدرتی ماحول کے تحفظ کی نیت سے ایک نئی کوشش کے طورپر تعلیمی اداروں بالخصوص پشاوریونیورسٹی کیمپس میں بھی آزمانا چاہئے ممکن ہے کہ مفید ثابت ہو گزشتہ سال کی بہار اور مون سون کی مہمات میں جو پودے لگائے گئے تھے جن میں سے بعض کی تصویر یں بھی میڈیا پر آئی تھیں دیکھنا یہ ہے کہ ان میں سے کتنے خوش نصیب پودے اس وقت زندہ صورت میں ارض کیمپس پر مود ہیں اور کتنے قصہ پارینہ ہوگئے ہیں؟ ان میں الخدمت تنظیم نے بے لوث خدمت کامظاہرہ کرتے ہوئے ایک طلبہ تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ کو جو درجنوں پھلدار پودے بطور عطیہ فراہم کئے تھے جس کا پہلا پودا لگانے کیلئے یونیورسٹی کے سربراہ کو زحمت دی گئی تھی معلوم کرنا ہوگا کہ ان پودوں کا کیا بنا؟ دیکھ بھال کی ذمہ داری نبھائی گئی؟ یا اس میں بھی یونیورسٹی والوں کی روش اختیار کی گئی ہے جامعہ پشاور کے موجودہ سربراہ کو شکوہ ہے کہ یونیورسٹی کے لوگ بالخصوص اساتذہ اونر شپ کے جذبے سے محروم ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ محض اساتذہ کانام لینا انصاف نہیں ہوگا بلکہ سوال یہ ہے کہ انتظامیہ اور خطوصاً افسران کیمپس کے ماحول کو بچانے کیلئے کیا کر رہے ہیں؟ اس وقت یہ سوال نہایت ہی جواب طلب ہے کہ یونیورسٹی کیمپس میں پرامن اور پرسکون تعلیمی ماحول قائم ہے؟ جواب اگر اثبات میں نہ ہو تو ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ آیا یونیورسٹی میں صفائی ستھرائی ہریالی ٹریفک اور باہر سے آنیوالی گاڑیوں کیلئے کوئی قاعدہ ضابطہ موجود ہے؟ اگر ہے تو اس پر کس حد تک عملدرآمد کیا جارہا ہے؟ حقیقت تو یہ ہے کہ کہیں چند پیسوں ٹکوں کی خاطر اور کہیں صریح غفلت اور غیر ذمہ داری کے ہاتھوں یونیورسٹی کیمپس کی ابتری میں روزافزوں اضافہ ہو رہا ہے مگر پرسان حال کوئی نہیں۔