ہماری سیاست کی بے اعتدالیوں نے عدلیہ کومصروف کر رکھا ہے ورنہ سیاسی مسائل اور اختلافات کو تو پارلیمانی اداروں میں حل کیا جاتا ہے‘ یہی وجہ ہے کہ ہم غیروں کے50 ہزار ارب سے زائد کے مقروض اور ہماری معیشت عالمی اداروں کے سودی قرضوں کی بیساکھیوں کے سہارے کھڑی ہے‘ سیاسی اور جمہوری ناکامی کے ہوتے ہوئے اب ہم اپنے اس سیاسی طرز عمل کو تعلیمی اداروں کے اندر لے جانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں ایسے میں عدلیہ کی یہ بات نہایت مناسب اور معقول لگتی ہے کہ تعلیمی اداروں کو سیاست بازی سے بچایا جائے یہ بات اپنی جگہ کہ سیاست کوئی شجرممنوعہ نہیں بلکہ ایک جمہوری ملک میں تو یہ لازم و ملزوم ہوتی ہے اور سیاسی رہنما ہی قوم کی آواز ہوتے ہیں مگر دیکھنا یہ ہوگا کہ قرضوں کا ناقابل برداشت بوجھ‘ غریب عوام کی کسمپرسی‘ حواس کھودینے والی مہنگائی‘ تعلیم کے چار سے زائد متضاد نظام‘ سیاست بلکہ پارلیمان سے شائستہ پارلیمانی طرز تکلم اور طرز عمل کا خاتمہ‘ مخالفین پر کیچڑ اچھالنا اور بے جا تنقید، یہی ہے ہماری سیاسی تاریخ اور سیاسی کردار؟
اب ایسے میں اگر اس قسم کی سیاست تعلیمی اداروں میں بھی پروان چڑھائی جائے تو اس کے نتائج اور فوائد کے بارے میں آپ خود سوچ لیں؟ تعلیمی ادارے تو ویسے بھی سیاسی جماعتوں کے اثر ورسوخ سے خالی نہیں‘ اگر کوئی دیکھنا چاہئے تو جا کر جامعہ پشاور اور اسلامیہ کالج کا مشاہدہ کرلیں تو سیاسی جماعتوں کے جھنڈے بینرز‘ مفلر ٹوپیاں اور بیجز ایک دو نہیں سینکڑوں کی تعداد میں نظر آئینگے پاکستان کے سب سے طویل آمرانہ دور میں غالباً1984 یا85 میں تعلیمی اداروں میں طلباء کی سیاسی سرگرمیوں کو ممنوع قرار دیا گیا تھا یہ فیصلہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کا تھا معلوم نہیں کہ وہ پابندی اٹھالی گئی یا تاحال برقرار ہے؟ اگر بحال ہو تو پھر تعلیمی اداروں میں سیاسی جلسوں کا اہتمام یا اس کیلئے تشہیری مہم چلانا کس زمرے میں آتا ہے؟ سنجیدہ حلقوں کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ تعلیمی اداروں کو سیاست سے محفوظ رکھا جائے بلکہ اس کی بجائے تعلیمی بجٹ بڑھائیں اور ملک میں ایک اور یکساں تعلیمی نظام رائج کرنے کا کارنامہ انجام دیں تاکہ عوام بلکہ آنیوالے لوگ بھی اسے یاد رکھیں مجھے یاد ہے کہ جب خدائی خدمتگار تحریک کے بانی باچا خان جلاوطنی ترک کرکے واپس آگئے تو اس وقت ان کے فرزند ارجمند عبدالعلی خان جامعہ پشاور کے وائس چانسلر تھے جبکہ اس سے قبل بھی ایک نہایت ہی قابل احترام منصب یعنی اسلامیہ کالج کے پرنسپل رہ چکے تھے۔
بقول ثقہ راوی جب باپ نے بیٹے سے کہاکہ عبدالعلی خان میں ذرا یونیورسٹی آکر اپنے بچوں سے ملنا اور چند باتیں کرنا چاہتا ہوں تو والد بزرگوار کے جواب میں بیٹے کا کہنا تھا کہ بابا آپ کی خدمتگاری‘ آپ کا نظریہ اور آپ کی سیاست اپنی جگہ مگر یہ سب کچھ یونیورسٹی کی چار دیواری کے اندر نہیں ہونا چاہئے اور یوں بیٹے نے باچا خان جیسے والد کو یونیورسٹی آنے کی اجازت نہیں دی مگر اب؟ مانا کہ سیاستدان اور دانشور ترقی یافتہ ممالک میں جامعات کی دعوت پر جاکر وہاں پر انسانی تاریخ‘ نشیب و فراز جنگوں اور انکی وجوہات‘ جمہوریت‘ انسانی حقوق اور پارلیمانی نظام جمہوریت وغیرہ پر لیکچر دیتے ہیں مگر ان کی باتوں سے طلباء سیکھ لیتے ہیں اس لئے تو نوجوان نسل کے بہی خواہ سنجیدہ حلقوں کی یہ رائے نہایت ہی قابل غور بلکہ قابل عمل معلوم ہوتی ہے کہ عدلیہ کا یہ مشورہ‘ ریمارکس یا ہدایت سو فیصد ملک و قوم کے مفاد میں ہے کہ سیاسی جماعتیں تعلیمی اداروں کو اپنی سیاست بازی کی بھینٹ چڑھانے سے باز رہیں کیونکہ یہ طرز عمل کسی طرح بھی قومی یکجہتی جمہوریت کے استحکام اور فروغ تعلیم کیلئے سود مند ثابت نہیں ہوگا۔