یونیورسٹی کیمپس کا انتظام و انصرام؟

جامعہ پشاور کے موجودہ سربراہ کے اصلاحاتی ایجنڈے پر عمل درآمد کے تاحال سو فیصد نتائج برآمد نہیں ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ ملازمین کا عدم تعاون بتائی جاتی ہے۔ دوسری جانب حکومت ہے جو گرانٹ کی فراہمی کا وعدہ کرکے بہت جلد اسے بھلا دیتی ہے بلکہ صاف انکاری بن جاتی ہے جامعہ کی حالیہ سینیٹ میں جامعہ کو 250 ملین روپے گرانٹ کی فراہمی کا جو وعدہ کیا گیا تھا حسب عادت کہا گیا کہ وہ دریا برد ہو گیا مطلب یہ کہ سیلاب سے صوبہ متاثرہ ہونے کے سبب حکومت اب یہ ادائیگی نہیں کر سکتی‘ دوسری جانب ملازمین ہیں جن کا پارہ بتدریج اوپر جا رہا ہے یعنی کہ پیمانہ صبر لبریز ہونے کے قریب ہے جامعہ کی کمیٹی برائے مالیات و منصوبہ سازی نے تو بلا چون و چرا جامعہ کے سربراہ کی اس رائے بلکہ دو ٹوک موقف کی تائید کر دی کہ ملازمین کے بقایا جات کی مزید ادائیگی تب ہو گی جب یونیورسٹی کو حکومتی گرانٹ مل جائے۔ 

مطلب یہ کہ بات گئی گزری ہو گئی کیونکہ گرانٹ تو ملنے والی ہے ہی نہیں البتہ صوبے کی نئی یونیورسٹیاں جو کہ گنتی میں پرانی ملاکر اب 33 تک پہنچ گئی ہیں وہ آسودہ حال رہیں گی جبکہ ساتھ ہی نئی یونیورسٹیاں تاحال پنشن کے بوجھ سے بھی محفوظ ہیں ایسے میں جامعہ پشاور کی انتظامیہ بالخصوص انتظامی سربراہ کی یہ کوشش انتھک معلوم ہوتی ہے کہ طلباء کی تعداد بڑھائی جائے اس کے لئے پہلا ٹارگٹ 20 ہزار دوسرا25 ہزار جبکہ حتمی یا فائنل ٹارگٹ30 ہزار رکھا گیا ہے ممکن ہے کہ ٹارگٹ تک پہنچنے کی دوڑ میں انتظامی سربراہ تعداد بڑھنے سے جڑے دوسرے مسائل پر قابو پانے کا مصمم ارادہ بھی رکھتے ہوں یعنی اساتذہ‘ کلاس رومز وغیرہ میں اضافہ ہاسٹل میں رہائش کی گنجائش اور سب سے بڑھ کر ٹریفک کو سنبھالنا اور مارکیٹ مینجمنٹ کمیٹی کو موثر بلکہ سریع الحرکت بنانا جیسے مسائل شامل ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

 کہا جاتا ہے کہ جامعہ کے سربراہ نے یونیورسٹی کے تمام ریسرچ سنٹرز کے ڈائریکٹرز سے میٹنگ کرکے انہیں یہ نوید سنا دی کہ یونیورسٹی کے ہاسٹلوں سے اپنے طلباء کو بلا تاخیر نکال باہر کر دیں کیونکہ یونیورسٹی اپنے طلباء کی تعداد میں اضافہ کرنے جا رہی ہے سربراہ کا موقف ہے کہ سنٹر زکے پاس گیسٹ ہاؤس اور اضافی کمرے بلکہ بعض کے پاس تو ہاسٹل بھی موجود ہیں لہٰذا سنٹرز اپنے طلباء و طالبات کی رہائش کا از خود انتظام کریں یونیورسٹی میں اس وقت دو مسائل سب سے زیادہ گھمبیر اور حل طلب نظر آرہے ہیں ایک سر پھری ٹریفک کی بد حواس حالت جبکہ دوسرا تو جہ طلب مسئلہ یونیورسٹی کی کینٹینوں اور کیفے وغیرہ کی خود اختیاری ہے اور وہ بھی اب اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ یونیورسٹی میں فائیو سٹار ہوٹل کی قیمتیں چارج کی جاتی ہیں۔

یہ مسئلہ مارکیٹ مینجمنٹ کمیٹی اور جامعہ کے سربراہ کے نوٹس میں بھی لایا گیا ہے مگر کسی اقدام یا کاروائی کاا بھی انتظار ہے ٹریفک کا سنبھالنا تو خیر اب یونیورسٹی انتظامیہ کے بس سے باہر ہو گیا ہے لہٰذا بہتر ہو گا کہ کیپٹل ٹریفک پولیس کی خدمات حاصل کی جائیں کیونکہ وہ تمام تر گاڑیاں اور رکشے یونیورسٹی کیمپس کے ماحول پر مسلط نظر آ رہے ہیں جو کسی لحاظ سے بھی سروس کیلئے فٹ نہیں ہیں اس طرح سکریچنگ‘ ون ویلنگ اور ریس کے لئے بھی یونیورسٹی کیمپس ایک محفوظ جگہ بلکہ شہر ناپرسان بن چکا ہے مضافات سے یونیورسٹی کیمپس میں آنے والے راستوں پر کڑی نگرانی اور چیکنگ کا کوئی معقول انتظام نہیں‘ پشاور یونیورسٹی میں جھاڑی و بوٹیوں والے راستوں میں جگہ جگہ باہر سے آنے والی یعنی آوٹ سائیڈر گاڑیوں کی پارکنگ کالے سٹیکر اور ریکارڈنگ بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی۔

 یہ اور ایسے دوسرے کئی مسائل بلکہ خامیاں ہیں جنہیں دور کرکے ایک حقیقی تعلیمی ماحول قائم کرنے کیلئے انتظامیہ اور پولیس کا ایکا ناگزیر ہو گیا ہے‘ انتظامیہ کی شکایت ہے کہ انتظام او انصرام کو بہتر طور پر چلانے میں پولیس کا عدم تعاون آڑے آ رہا ہے جبکہ پولیس کا موقف ہے کہ وہ یونیورسٹی انتظامیہ بالخصوص وائس چانسلر کی ہدایت کے بغیر اپنے طور پر کو ئی کاروائی نہیں کر سکتی اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب یونیورسٹی انتظامیہ رکشوں اور پک اینڈ ڈراپ گاڑیوں کی انٹری فیس مقدم رکھے گی اور پولیس وائس چانسلر کے آرڈر کی منتظر رہے گی تو یونیورسٹی کیمپس کا کیا بنے گا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جو بھی بنے گا وہ چھپ نہیں رہ سکے گا بلکہ بہت جلد سب کے سامنے آئے گا‘ دیر بس محض اس بات کی ہے کہ طلباء کی تعداد بڑھانے کا ٹارگٹ حاصل ہو جائے۔