بدھ مت کی سیاحت

تھائی لینڈ کی ’سنگھا (Sangha) سپریم کونسل‘ کے چیف بدھ بھکشو محترم ’آرایاوانگسو (Arayawangso)‘ تاریخی شہر ’ٹیکسلا‘ میں 3 ماہ کی مذہبی رسومات گزارنے کے بعد اپنے وطن واپس پہنچ گئے ہیں؛ روحانی پیشوا ٹیکسلا میں پیروکاروں کے ساتھ مقیم رہے یہ وفد بدھ مت کی مذہبی رسومات ادا کرنے کے لئے تشریف لایا تھا۔ یہ عبادات ہر سال برسات کے موسم (مون سون سیزن) میں کی جاتی ہیں‘ برسات کے موسم کے اختتام پر ’کتھینا‘ کی رسم ادا ہوتی ہے جس کیلئے خصوصی تقریب کا انعقاد کیا گیا اور اِس میں انڈونیشیا‘ سری لنکا‘ نیپال‘ برما (میانمار) اور مشرق بعید کے کئی دیگر بدھ اکثریتی ممالک کے سفیروں نے شرکت کی‘ اس موقع پر بدھ مت شرکا نے پاکستان کو ”امن پسند“ ملک قرار دیا اور اس بات کا اعتراف کیا کہ مختلف مذاہب کے پیروکار اپنے مذہبی تہوار منانے کی آزادی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار بدھ مت کے انتہائی بااثر رہنما نے اپنے پیروکاروں کے ساتھ تین ماہ تک قیام کیا ہے اور سالانہ مذہبی تقاریب کیلئے اِس خطے کا انتخاب کیا جو کہ بدھ مت کے مقدس ترین مقامات میں سے ہے اِس غیرمعمولی پیشرفت کو ’پاکستان میں مذہبی سیاحت کے فروغ کی جانب ایک بڑا قدم سمجھا جا رہا ہے  اگر حکومت توجہ دے تو اِس قسم کی سیاحت  قومی آمدنی میں اضافے کا باعث بن سکتی ہے‘ یادش بخیر گزشتہ سال سری لنکا سے مذہبی سیاح ’بدھ مت‘ کی اکثریت والی گندھارا تہذیب 
سے وابستہ مختلف تاریخی اور مذہبی اہم مقامات کی زیارات کیلئے پاکستان آئے تھے اُنہوں نے بھی پاکستان کو امن پسند ملک قرار دیتے ہوئے یہاں اقلیتوں سے سلوک پر اطمینان کا اظہار کیا تھا۔ چند سال قبل کورین بدھ راہبوں کی گلگت بلتستان آمد نے بھی ملکی و غیرملکی ذرائع کی توجہ حاصل کی تھی۔ قابل ذکر ہے کہ شمالی علاقہ جات میں مذہبی سیاحت کی اجازت کا یہ پہلا موقع تھا جب بدھ راہبوں کے ایک گروہ نے وہاں مذہبی رسومات ادا کیں‘دوہزارسالہ قدیم ”گندھارا تہذیب“ جو موجودہ پاکستان کے شمالی علاقوں سے تعلق رکھتی ہے‘ ہمارے خطے میں بدھ مت کے شاندار ماضی کی عکاسی کرتی ہے۔ دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹی ’ٹیکسلا‘ میں قائم کی گئی تھی جہاں عظیم فلسفی چانکیہ طلبہ کو پڑھایا کرتے تھے اسلئے دنیا کے ہر بدھ مت کی خواہش ہے کہ وہ ٹیکسلا‘ تخت بھائی‘ سوات‘ گلگت بلتستان‘ پشاور اور دیگر پاکستانی علاقوں کے مقدس مقامات پر جائیں۔‘کئی ایشیائی ممالک بشمول جاپان‘ کوریا‘ چین‘ میانمار‘ تھائی لینڈ‘ کمبوڈیا‘ ویت نام‘ سری لنکا‘ سنگاپور‘ بھوٹان‘ لاؤس‘ بھارت اور منگولیا میں بدھ مت کے پیروکاروں کی بڑی آبادی ہے۔ چین کی آبادی کا اٹھارہ فیصد‘ جو کہ قریب ساڑھے چوبیس کروڑ (244ملین) افراد پر مشتمل ہے‘ بدھ مت کی پیروکار ہے؛ بدھ مت کے پیروکاروں کی ایک بڑی تعداد روس‘ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک میں بھی مقیم ہے‘پاکستان میں ہندوؤں کی نمائندہ تنظیم ”پاکستان ہندو کونسل“ کے مطابق پاکستان میں بدھ مت کی آبادی تیزی سے کم ہو رہی ہے“ اِس وقت پاکستانی بدھ شہریوں کی تعداد صرف 1741 ہے۔ بدھ مت کے پیروکاروں کی اکثریت صوبہ سندھ میں انتہائی غربت کی زندگی گزار رہی ہے‘میرے خیال میں اگر پاکستانی بدھ مت کے ماننے والوں کی تعلیم و تربیت پر توجہ دی جائے تو وہ بدھ اکثریتی ممالک کے ساتھ رابطے کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ حال ہی میں ذرائع ابلاغ میں چند خبریں شائع ہوئیں جن میں کہا گیا تھا کہ کوریا ٹیکسلا میں گندھارا انٹرنیشنل یونیورسٹی کے قیام میں دلچسپی رکھتا ہے میں نے پانچ سال پہلے یہی تجویز پیش کی تھی۔ بدھ مت کی جامعہ ٹیکسلا کے بانی ’چانکیہ‘ کی یادگار خدمات کو خراج عقیدت و تحسین پیش کرنے کا یہی سب سے بہترین طریقہ ہے کہ اُن کے نام سے منسوب بین الاقوامی یونیورسٹی قائم کی جائے؛ مجوزہ یونیورسٹی کے ہاسٹلز یعنی قیام و طعام کی سہولیات‘ موسم گرما کی تعطیلات کے دوران بدھ مت کے پیروکاروں (سیاحوں) کے حوالے 
کی جا سکتی ہیں‘ دنیا بھر میں پاکستان میں بنے بدھا کے مجسموں کی بھی بہت زیادہ مانگ ہے‘ ٹیکسلا میں بہت سے باصلاحیت مجسمہ ساز ہیں جنہوں نے مجسمے بنانے کا فن اپنے آبا ؤ اجداد سے سیکھ رکھا ہے۔ بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق ان کی محنت کا معاوضہ صرف دو ہزار روپے ہے جبکہ پاکستانی مجسمے بین الاقوامی بلیک مارکیٹ میں دس ہزار ڈالر سے زائد میں فروخت ہو رہے ہیں۔ بلاشبہ پاکستان دنیا بھر سے بدھ مت کے سیاحوں کے لئے ایک پُرکشش ملک بننے کی صلاحیت رکھتا ہے تاہم اس کیلئے ترجیحی بنیادوں پر کم از کم تین اقدامات کرنے کی ضرورت ہے؛ پہلا یہ کہ پاکستان میں مذہبی سیاحت کے فروغ کے لئے ریگولیٹری اتھارٹی قائم کی جائے‘ دوسرا پاکستان میں بنے ہوئے بدھا کے مجسموں کی برآمد کو قانونی شکل دی جائے یعنی مجسمہ سازی کے فن کو ایک باقاعدہ صنعت کا درجہ دیا جائے اور تیسرا ٹیکسلا میں بین الاقوامی یونیورسٹی قائم کی جائے۔ اگر ہماری حکومت صرف مذہبی سیاحت کے فروغ پر توجہ دے تو اِس سے نہ صرف عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ (امیج) بہتر ہوگی بلکہ قلیل مدت میں بھاری زرمبادلہ بھی کمایا جا سکتا ہے جو غیر ملکی قرضوں کی واپسی اور اِن سے نجات حاصل کرنے (آمدنی) کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ (مضمون نگار رکن قومی اسمبلی اور پاکستان ہندو کونسل کے سرپرست اعلیٰ ہیں۔ بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)۔