پیوٹا الیکشن کا دنگ

پشاور یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن  یعنی پیوٹا کے سیشن2022-23ء کے انتخابات بھی انتظامیہ اور پیوٹا کے برسراقتدار فرینڈز گروپ کے مابین جاری چپقلش کی فضا میں ہو رہے ہیں‘ پیوٹا کی انتخابی تاریخ سے واضح ہے کہ پہلے یہ مقابلہ روایتی حریفوں یعنی تنظیم اساتذہ اور فرینڈز کے درمیان ہوا کرتاتھا اور یوں تنظیم سے وابستہ نہایت سینئر اور خدمات کے جذبے سے  سرشار لوگوں نے پیوٹا کی قیادت کی مگر اب ایک عرصہ سے تنظیم پس منظر میں چلی گئی ہے اور اب دنگل میں فرینڈز اور انٹلیکچول فورم قسمت آزمائی کیساتھ ساتھ اپنی قوت کا مظاہرہ کرتے ہیں اس بار30نومبر کو پولنگ ہوگی اور یوں پہلوانوں کی انتخابی مہم چلانے اور جوڑ توڑ کیلئے کافی وقت میسر آیا ہے ممکن ہے کہ اس مرتبہ انتخابی مہم کچھ زیادہ زور وشور سے چلائی جائے کیونکہ اساتذہ میں ایک گروپ ایسا بھی سامنے آیا ہے جو انتظامیہ اور پیوٹا دونوں سے گلے شکوے اور مایوسی کا اظہار کر رہا ہے ان کا دعویٰ ہے کہ تعداد میں 225ہیں اور ان میں 82 پی ایچ ڈی ہولڈر مرد اور خواتین اساتذہ بھی شامل ہیں جو کہ ڈاکٹریٹ کرنے کے باوجود عرصہ سے ترقی سے محروم چلے آرہے ہیں ان ناراض اساتذہ نے بھی اپنی سرگرمیوں کے سلسلے میں ٹیچرز کمیونٹی سنٹر میں یکے بعد دیگرے مشاورتی اجلاس منعقد کرکے اپنا یہ موقف واضح کردیا ہے کہ ان کا ووٹ اس گروپ کے حق میں پڑے جو ان کیلئے یونیورسٹی کی قانونی باڈیز بالخصوص سنڈیکیٹ میں آواز اٹھائے گا ترقی سے محروم ناراض میل اور فی میل اساتذہ کا موقف سامنے آتے ہی مدمقابل گروپوں یعنی فرینڈز اور انٹولیکچول فورم نے ان سے اپنے رابطے بڑھادیئے ہیں اور حتی الوسع کوشش یہ ہے کہ ناراض اساتذہ کا ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے ویسے یہ لوگ کہتے ہیں کہ وائس چانسلر اور پرووائس چانسلر نے یقین دلایا ہے کہ ان کی ترقی کا معاملہ آئندہ سنڈیکیٹ کے ایجنڈے میں شامال کیا جائے گا اب اگر یہ یقین دہانی درست ثابت ہوگی اور سنڈیکیٹ کا اہتمام بھی پیوٹا الیکشن سے قبل ہو جائے تو پھر سوال یہ ہے کہ ناراض اساتذہ کا ووٹ کس کے پلڑے میں پڑے گا؟ میرے خیال میں اس سوال کا جواب فرینڈز گروپ زیادہ بہتر طور پر دے سکتا ہے یہ بات اپنی جگہ کہ تنظیم اساتذہ پس منظر میں چلی گئی ہے لیکن پیوٹا کے الیکشن میں تنظیم کا اثررسوخ اب بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اب دیکھنا یہ ہے کہ یونیورسٹی گزشتہ کچھ عرصے سے مالی مشکلات کیساتھ ساتھ جن دوسرے حل طلب مسائل سے دوچار ہے فرینڈز اور انٹلیکچول  فورم کے انتخابی پروگرام میں اسکے حل کیلئے کوئی نسخہ تجویز کیا جائے گا یا محض روایتی باتیں ہوں گی؟ صفائی اور ٹریفک کی حالت زار‘ آؤٹ سائیڈروں کی بھرمار طلباء تنظیموں کی سیاست بازی‘ حکومت اور اقتدار سے باہر سیاسی جماعتوں کی دخل اندازی‘ گرانٹ کی عدم فراہمی‘ ٹینور ٹریک سسٹم اور بیسک پے سکیل کے تحت کام کرنیوالے اساتذہ کے مسائل اور مطالبات‘ ملازمین کے واجب الادا بقایا جات کے لئے مالی وسائل کا نہ ہونا اور ساتھ ہی یونیورسٹی کیمپس میں ٹک ٹاکروں اور ریسلروں کی انٹری سمیت دوسری متعدد خامیاں اور  مسائل ہیں جس کا حل اگر انتظامیہ چاہے بھی تو اسکے بس کی بات نہیں ہوگی میرے خیال میں یہ سوال بھی جواب طلب ہے کہ یونیورسٹی کے کینٹینوں میں فراہم ہونے والے فوڈز آئٹمز اور اسکے عوض وصول ہونے والی قیمتوں کو قاعدے ضابے کے تحت لانا آیا محض یونیورسٹی انتظامیہ کی ذمہ داری ہے یا جامعہ کے بنیادی سٹیک ہولڈر یعنی اساتذہ پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے؟