موسمیاتی تبدیلی میں ہمارا کوئی حصہ نہیں؟

کہا جاتا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کا سبب بننے والے عوامل میں پاکستان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے مگر اسکے باوجود سب سے پہلے اور سب سے زیادہ متاثر ہوا‘ یہ بات اس حد تک تو درست مانی جائے گی کہ ہمارے ہاں صنعتی سرگرمیاں یورپ اور امریکہ کے مقابلے میں حد درجہ کم ہوں گی لیکن اس سوال کا جواب کیا ہوگا کہ ہمارے کراچی‘ لاہور‘ فیصل آباد اور پشاور دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں سرفہرست ہیں؟ اس ضمن میں نہایت سیدھی اور سادی بات یہ ہے کہ جب تک ناقابل استعمال ٹرانسپورٹ کو ٹھکانے لگانے‘ جنگلات کے رقبے میں مطلوبہ اضافے اور کھیت کلیان‘ ہریالی کی کمی پوری کرنے اور اس طریق پر قدرتی ماحول کی بحالی کے مقاصد حاصل نہ ہوں تب تک ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ماحولیاتی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلی میں ہمارا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے‘ حالیہ سیلابوں نے جس طرح ہماری زراعت اور لائیو سٹاک کو ملیامیٹ کرکے ہماری معیشت کو بربادی سے ہمکنار کر دیا ہے اسکے ہوتے ہوئے بھی ہم وہی پرانی طریق پر چل رہے ہیں ٹرانسپورٹ کیلئے کوئی پالیسی اور میکانزم ہے اور نہ ہی تجارتی بنیادوں پر بڑھتی ہوئی عمارتوں کی روک تھام کو ضروری سمجھا گیا ہے۔ شجرکاری کی مہمات محض دکھاوے کی حد تک ایک روایت بن گئی ہیں ورنہ جنگلات کے رقبے میں ضرور اضافہ ہوجاتا البتہ یہ ضرور ہوا ہے کہ ملک بالخصوص خیبرپختونخوا کی جامعات نے سیلابی صورتحال اور موسمیاتی تبدیلی کے دوسرے منفی اثرات سے نمٹنے کیلئے لوگوں میں شعور و آگہی اور مستعدی پیدا کرنے کے کام کا آغاز کر دیا ہے اس سلسلے میں پی سی ایس آئی آر پشاور میں مختلف جامعات اور صوبائی حکومت بالخصوص حلال فوڈ اتھارٹی کی طرف سے دو روزہ فوڈز ایکسپو کے بعد پشاور یونیورسٹی میں کالج آف ہوم اکنامکس کے زیر اہتمام پانچ روزہ فوڈ سکیورٹی اور نیوٹریشن یعنی غذائیت کے بارے میں تربیتی کورس کا انعقاد ہرلحاظ سے ایک قابل ستائش اقدام ہے جس کیلئے شعبہ فوڈ اینڈ نیوٹریشن کی انچارج اور کورس کوآرڈی نیٹر ڈاکٹر فازیہ غفار اور پرنسپل ڈاکٹر شہناز پروین خٹک لائق تحسین ہیں‘ کورس کے اہتمام میں خیبر میڈیکل یونیورسٹی اور زرعی یونیورسٹی کا اشتراک اور عالمی تنظیم یونیسف اور صوبائی محکمہ صحت کا تعاون  بھی نہایت قابل ستائش امر ہے کورس میں کالج کے شعبہ فوڈ اینڈ نیوٹریشن کی ایم فل اور پی ایچ ڈی سکالرز کو خیبر میڈیکل یونیورسٹی اور زرعی یونیورسٹی کے ڈاکٹر خالد اقبال،ڈاکٹر ضیاء الدین، ڈاکٹر نعمت اللہ، ڈاکٹر حمیرا وسیلہ، ڈاکٹر بی بی ہاجرہ اور کورس آرگنائزر ڈاکٹر فازیہ غفار نے آفات کی ہنگامی صورتحال میں خوراک کے ذرائع کے تحفظ بہتر استعمال اور متاثرین کو خوراک پہنچانے کے طریقوں کی سائنسی بنیاد پرجو تربیت فراہم کر دی اس کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا تاہم ایسی سرگرمیوں اور ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کیلئے تربیت یافتہ افرادی قوت تیار کرنے کی کوششوں میں حکومتی تعاون بھی ناگزیر ہوگا کیونکہ جامعات تو تعلیمی بجٹ میں مسلسل کٹوتی اور گرانٹ کے حصول میں مشکلات سے دوچار ہونے کے سبب اس قابل نہیں رہی ہیں کہ اپنے طورپر اپنے وسائل سے ایسی مہمات ک چلا سکیں‘ اس بارے میں یہ بات ذہن نشین کرنی ہوگی کہ جب تک حکومت ماحولیاتی آلودگی کی روک تھام کو اپنی پالیسی اقدامات میں اولین ترجیح کے طورپر شامل نہ کرے تب تک جامعات یا دوسرے اداروں کی اس جیسی کاوشیں کچھ زیادہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکتیں کیونکہ جامعات کی کوششیں تو آفات کے بعد ہنگامی صورتحال  سے نمٹنے کیلئے ہیں مگر یہاں پر مسئلہ بلکہ جواب طلب سوال یہ ہے کہ ماحولیاتی آلودگی میں مسلسل اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟ حد سے زیادہ بارشوں گلیشیئرز کے پھٹنے اور درجہ حرارت میں حد سے زیادہ اضافے کے اسباب کیا ہیں؟ ایسے حالات میں اگر حکومت صرف  ٹرانسپورٹ کے شعبے کو ضرورت کے مطابق اصلاح کی راہ پر ڈال کر سائنسی خطوط پر استوار کرے تو بھی ماحولیاتی آلودگی میں واضح کمی واقع ہوگی۔