پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہے اور اِسے عالمی سطح پر انصاف حاصل کرنے کے لئے اپنا مقدمہ زیادہ مضبوطی و استقامت کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ ’جرمن ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان نے گزشتہ دو دہائیوں میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ظہور پذیر ہونیو الی 173 مختلف آفات کا سامنا کیا ہے جن کی وجہ سے پاکستان کی معیشت کو مجموعی طور پر 3 ہزار 772 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ ان آفات میں سیلاب‘ گرمی کی لہر‘ زیادہ بارشیں‘ ماحول کی وجہ سے مقامی افراد کی نقل مکانی‘ برفانی تودے (گلیشیئرز) پگھلنا اور برفانی جھیلوں میں اُٹھنے والے سیلاب شامل ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ گزشتہ پچاس برس میں پاکستان میں سالانہ اوسط درجہ حرارت میں صفر اعشاریہ پچاس سنٹی گریڈ اضافے کا نتیجہ ہے۔ اس کے نتیجے میں ہر سال ہیٹ ویو کے دنوں میں بھی اضافہ ہوا ہے اور یہ پچھلے تیس برس میں پانچ گنا اضافہ غیرمعمولی ہے۔ گزشتہ صدی میں کراچی کے ساحل کے ساتھ سطح سمندر میں تقریباً دس سینٹی میٹر اضافہ ہوا ہے۔ سالانہ بارش نے بہت زیادہ تغیر ظاہر کیا ہے لیکن پچھلے پچاس برس میں اِس میں قدرے اضافہ ہوا ہے۔ بارش میں اضافے کے تازہ ترین ثبوت اس سال دیکھنے میں آئے کیونکہ 88اضلاع بُری طرح متاثر ہوئے‘ جس سے لاکھوں لوگ اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ ورلڈ بینک کے تازہ ترین تخمینوں کے مطابق‘ نقصانات کا تخمینہ قریب پندرہ ارب ڈالر سے زیادہ ہے جبکہ اِس کے علاوہ معاشی نقصانات تقریباً پندرہ ارب ڈالر تک پہنچ سکتے ہیں۔ پاکستان تحفظ ماحول کی عالمی کوشش کے سلسلے میں بنائے جانے والے اتحاد کا وائس چیئرمین ہے۔ اِس اتحاد کے حالیہ اجلاس (COP27) میں وزیر اعظم شہباز شریف شریک ہوئے اور اُنہوں نے پاکستان اور ترقی پذیر دنیا کو موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرات سے آگاہ کیا۔ COP موسمیاتی تبدیلیوں اور اس سے ہونے والے نقصانات کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثرہ ملک کے حوالے سے اپنا مقدمہ پیش کرنے کا ایک بہترین موقع تھا تاہم اِسے آخری موقع نہیں سمجھنا چاہئے اور موسمیاتی تبدیلیوں کے بارے میں ہر فورم اور ہر جگہ پر پاکستان کا مقدمہ پیش کرنا چاہئے۔ پاکستان ماحول کے لئے مضر گیسوں کے اخراج کے لئے بہت ہی کم ذمہ داری ہے لیکن یہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر ہے۔ حالیہ سیلاب نے تین کروڑ تیس لاکھ (33ملین) افراد کو متاثر کیا ہے۔ صرف اس سال کے سیلاب میں سترہ سو سے زیادہ لوگ لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ عالمی بینک کے مطابق سیلاب کے براہ راست اثر کے طور پر مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا نقصان مالی سال دوہزاربائیس کی جی ڈی پی کے تقریباً دو اعشاریہ دو فیصد ہوگا‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ قریب 90 لاکھ افراد غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں۔ لوگ اپنے گھر بار‘ مال مویشی اور روزی روٹی کے ذرائع کھو چکے ہیں۔ پانی کھڑا ہونے کی وجہ سے وبائی امراض پھیلی ہوئی ہیں۔ عالمی بینک کے اندازوں کے مطابق 33ملین آبادی کی بحالی کی لاگت کم از کم 16 ارب ڈالر درکار ہیں۔پاکستان کو موسمیاتی موافقت کی ضرورت پر زور دینے اور پیرس معاہدے کے آرٹیکل آٹھ کے تحت امیر ممالک کو تحفظ ماحول سے متعلق اپنا عہد یاد دلانے کی ضرورت ہے یعنی موسمیاتی موافقت پیدا کرنے کے لئے امیر ممالک کو ترقی پذیر دنیا کی مدد کرنی چاہئے اور اِس مقصد کے لئے ایک عالمی فنڈز کا قیام عمل میں لایا جائے۔ پاکستان کو چاہئے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے نقصانات کا ازالہ کرنے کے لئے دنیا پر دباؤ ڈالے اور ایک ایسا طریقہ کار وضع کرے جس کے تحت متاثرہ پاکستان سمیت ترقی پذیر ممالک کو معاوضہ دیا جا سکے۔ پاکستان کو اس معاوضے کی رقم ارلی وارننگ سسٹم‘ موسمیاتی لچکدار انفراسٹرکچر اور فطرتی حل کے لئے درکار ہے۔ یہ موسمیاتی موافقت کے لئے حکومتوں‘ نجی شعبے اور سرمایہ کاروں کے درمیان شراکت داری قائم کرنے کا بھی ایک بہترین موقع ہے۔ ایک اور اہم شعبہ ’انڈسٹری ڈیکاربونائزیشن‘ کا ہے۔ پاکستان کو G-77 پلس کے ساتھ مل کر امیر ممالک کو صنعتی اخراج میں کمی لانے پر رضامند کرنا چاہئے اور اِس سلسلے میں ایک عالمی دباؤ بڑھانا چاہئے کیونکہ جب تک سرمایہ دار ممالک ذمہ داری کا ثبوت نہیں دیں گے اُس وقت دنیا کے جنوبی (گوبل ساؤتھ) کے ممالک پر موسمیاتی تبدیلیوں کا دباؤ برقرار رہے گا اور ہر سال سیلاب رونما ہوتے رہیں گے جن کا بوجھ اُٹھانے کے لئے اِن ممالک کی معیشت و معاشرت متحمل نہیں ہے۔ دنیا سے فوسل فیول ختم کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ گلوبل وارمنگ دنیا کے ہر خطے کو متاثر کر رہی ہے۔ پاکستان کے لئے یہ ایک چیلنج ہے کہ دنیا کو اِس پر قائل کیا جائے کہ ہر ملک اپنے ہاں کوئلے کے استعمال پر انحصار کم کرے اور مرحلہ وار ماحول دوست ایندھن کا استعمال کرے جس کے لئے صاف ٹیکنالوجی کی منتقلی اور صلاحیت سازی کی ضرورت ہے۔ قابل تجدید ذرائع کی طرف منتقل ہونے کے لئے بھی پاکستان کو مالی وسائل (عالمی امداد) کی ضرورت ہے جو امیر ممالک کو فراہم کرنی چاہئے۔ صوبائی حکومتوں کو بھی موسمیاتی لچکدار انفراسٹرکچر اور شہروں کی توسیع کے لئے منصوبہ بندی میں قومی لائحہ عمل میں شریک (حصہ دار) بننا ہوگا کیونکہ موسمیاتی تبدیلی کسی ایک صوبے یا صرف وفاقی حکومت کا نہیں بلکہ ہر صوبے اور ہر شہری کا مسئلہ ہے۔ توجہ طلب ہے کہ سیلاب کی وجہ سے مہنگائی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان کو سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی ذہنی صحت کے مسائل بھی دنیا کے سامنے رکھنے چاہئیں اور اِس سلسلے میں عطیہ دینے والے دوست ممالک کے ساتھ بات چیت کرنی چاہئے تاکہ صلاحیت و اہلیت کو بہتر بنایا جا ئے ہمارے کسانوں کو اپنی فصلوں اور پھلوں کو اُگانے کے لئے جدید سائنسی بنیادوں پر کھیتی باڑی جیسے حل کی ضرورت ہے۔ جنگلات کی کٹائی اور شہروں کی غیر منصوبہ بند تعمیر (پھیلاؤ) کی وجہ سے عالمی سطح پر زمین کا احاطہ خطرناک حد تک ختم ہو رہا ہے۔ پاکستان نے پہلے ہی بڑے پیمانے پر شجرکاری مہم شروع کر رکھی ہے لیکن مینگروو جنگلات کے رقبے میں اضافے اور زرعی مقاصد کے لئے زمین کے پائیدار استعمال کے حوالے سے مزید کوششوں کی ضرورت ہے۔ اِس ’نیچر پویلین‘ میں پاکستان کو سرمایہ کاروں اور تعاون کی تلاش کرنی چاہئے۔ ترقی یافتہ ممالک کو بھی اپنے ہاں جنگلات کا رقبے بڑھانے کے لئے سنجیدہ اقدامات بارے عہد کرنا چاہئے۔ چیلنج بڑا ہے۔ پاکستان کی سول سوسائٹی‘ ذرائع ابلاغ اور عوام کو ’ماحولیاتی ناانصافیوں‘ کے خلاف آواز اٹھانے کے لئے مل جل کر کام کرنا چاہئے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: مریم شبیر عباسی۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
غربت‘ تنازعہ اور انسانیت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
سرمائے کا کرشمہ
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام