پنشن‘جامعات کا ایک گھمبیر مسئلہ

بلاشبہ اگر تعلیم کو ریاست کی اولین ترجیحات میں شامل کیا جائے تو مالیات سے جڑے تمام مسائل حل ہونگے‘ کہتے ہیں کہ جامعہ پشاور نے پنشن انڈومنٹ فنڈ قائم کر دیا ہے؟ واقعی ایسا ہی ہے یا جس اکاؤنٹ میں پنشن کے پیسے رکھے جاتے تھے اسے انڈومنٹ فنڈ کا نام دیا گیا؟ پنشن کا مسئلہ اگرچہ دوسری پرانی جامعات کو بھی درپیش ہوگا مگر سب سے زیادہ پنشنرز یا ریٹائرڈ ملازمین پشاور یونیورسٹی کے ہیں جن میں بھاری اکثریت اسلامیہ کالج کی ہے یہ وہ ملازمین ہیں جو سال2008 میں اسلامیہ کالج  کویونیورسٹی کا درجہ ملنے سے قبل پشاور یونیورسٹی سے فارغ ہوئے تھے ان ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن نے تو اب ایک تنازعے کی شکل اختیار کرلی ہے کیونکہ پشاور یونیورسٹی نے پنشن کی ادائیگی سے انکار کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا ہے کہ وہ اس موجودہ گھمبیر مالی بحران میں اسلامیہ کالج کے250 سے زائد پنشنرز کو ماہانہ ایک کروڑ روپے سے زائد ادائیگی نہیں کرسکتی پنشن کا مسئلہ گھمبیر سہی لیکن اس کا حل ناممکنات میں سے نہیں بس ہونا یہ چاہئے کہ اس کے حل کیلئے ایک مربوط اور مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دیا جائے وائس چانسلر اور گریڈ21 تک کے اساتذہ سے ماہانہ پانچ فیصد گریڈ 17 سے20تک تین فیصد کلاس تھری سے2فیصد اور کلاس فور سے ایک فیصد کٹوتی کرکے پنشن فنڈ کیلئے وفاقی اور صوبائی حکومت جبکہ جامعہ کے ملک اور بیرون ملک ایلومنائے یعنی سابقہ طلباء کا تعاون ممکن بنا کر پنشن کا مسئلہ مستقل طور پر حل ہوگا اس کارخیر کیلئے پاکستان اور بیرون ملک ایسی شخصیات اور تنظمیں بھی موجود ہیں جو جامعہ کو اپنے  تعاون کا ہاتھ بڑھاتی رہیں گی اس مسئلے کا حل اس لئے بھی ناگزیر ہے کہ ایک تو ریٹائرڈ ملازمین کو انکی زندگی کے قیمتی وقت جامعہ میں رہ کر خدمت میں گزارنے کا صلہ بہتر انداز میں ملنا چاہئے دربدر ہونے اور ٹھوکریں کھانے کی  شکل میں نہیں ساتھ ہی جب مسئلہ حل ہو تو اسکے یونیورسٹی کی ٹریژری پر بھی مثبت اثرات مرتب ہونگے اور یونیورسٹی مزید مالی استحکام سے ہمکنار  ہو کر تعلیم و تحقیق انتظام و انصرام اور ملازمین کی فلاح و بہبود کیساتھ ساتھ مستحق طلباء کی مدد کی پوزیشن میں آجائے گی‘ ویسے بھی جامعہ پشاور کے موجودہ سربراہ نے یہ خواہش ظاہر کردی ہے کہ یونیورسٹی سابق دور کے قرضوں کے دلدل سے نکل کر اب اس قابل ہوگئی ہے کہ اپنے سالانہ بجٹ کا ایک معقول حصہ طلباء کی فلاح و بہبود اور سہولیات کیلئے مختص کرے‘ بہرکیف یہ خواہش یا عزم تو بجا طور پر قابل ستائش ہے البتہ ملازمین میں سے بعض سیانے کہتے ہیں کہ وہ دیکھیں گے کہ طلباء پر کتنے پیسے خرچ ہوتے ہیں؟ فی الحال تو حالت یہ ہے کہ نادار طلباء کی جو امداد اساتذہ کی تنخواہوں سے کٹوتی کرکے کی جاتی رہی وہ بھی ایک عرصہ سے غیر واضح ہوگئی ہے ہاں لیکن یہ کٹوتی ان کٹوتیوں میں سے نہیں جس کے خلاف یونیورسٹی ملازمین نے جائنٹ ایکشن کونسل کے بینر تلے ایکا کرکے یونیورسٹی کے پورے نظام کو مفلوج کرکے رکھ دیا تھا اور حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگی تھی ہاں یہ بھی سچ ہے کہ جن کٹوتیوں کے خلاف تین ہفتے سے بھی زائد عرصہ تالہ بندی کی گئی تھی دراصل وہ مسئلہ کورونا کے مارے ہوئے طلباء‘ داخلے اور اسناد کے حصول کیلئے شعبہ امتحانات جبکہ پنشن کے لئے یونیورسٹی ٹریژری میں آنے والے عمر رسیدہ اور بیمار سابقہ ملازمین کا نہیں تھا بلکہ حاضر سروس  ملازمین محض اپنے مفاد کی خاطر سیخ پا ہوگئے تھے یہ بات اپنی جگہ کہ طلباء تنظیموں کے منتظمین انہی ملازمین کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہو گئے تھے اور پھر اپنے رابطوں ور مصالحانہ کوششوں کی بدولت انتظامیہ اور جائنٹ ایکشن کونسل کے کرتا دھرتا کا آپس میں گلے ملنے کا اعزاز بھی حاصل کرلیا تھا مگر بدقسمتی سے حالات میں کوئی بہتری دیکھنے میں نہیں آئی بلکہ رسہ کشی اور چپقلش کا عالم بدستور قائم رہا درحقیقت پنشن اور جامعات کے دوسرے مالی مسائل بلکہ کئی سال سے طاری مالی ابتری کی وجوہات توجہ طلب ہیں مثلاً تعلیم کا حکومتی ترجیحات میں شامل نہ ہونا بجٹ میں ملازمین کیلئے اعلان کردہ مراعات میں یونیورسٹی ملازمین کو خاطر میں نہ لانا‘ جامعات میں اونر شپ کے جذبے کا فقدان جبکہ انتظامیہ اور فیکلٹی کے مابین تعاون کی بجائے رسہ کشی تعلیم اور تعلیمی اداروں کو مزید ابتری سے دوچار کرنے کا سبب بن رہی ہے۔