وطن عزیز میں یہ جو ہر دوسرے تیسرے روز الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں بچوں اور بچیوں سے زیادتیوں اور قتل کے واقعات کی خبریں سننے اور پڑھنے کو مل رہی ہیں توہر ذی شعور پاکستانی کے ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ آخر اس طرح کے حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے موثر قانون سازی کیوں نہیں کی جاتی۔ہمیں اپنے ساتھ ان ممالک پر بھی نظر رکھنا ہوگی جہاں موثر قوانین اور سخت سزاؤں کے ذریعے اس قسم کے جرائم پر قابو پایا گیا ہے اوران میں حیرت انگیز کمی واقع ہو گئی تھی۔ ان ابتدائی کلمات کے بعد چند دیگر اہم عالمی اور قومی معاملات کا بھی تذکرہ بے جا نہ ہوگا۔ایشیاء کے کئی ممالک سمیت چین روس کے سستے تیل اور گیس سے اس وقت بھر پور استفادہ کررہا ہے اور ایک طرح سے روس پر امریکی پابندیاں عملی طور پر غیر موثر ہوگئی ہیں۔یوکرین پر روس کے حملے کے بعد چین کی روسی تیل کی درآمدات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ چین کی طرف سے روسی تیل کی خریداری میں اس سال اُتار چڑھا ؤآیا ہے، جو فروری میں روس کے یوکرین پر حملے کے شروع میں کم ہوئی، لیکن پھر اگلے مہینوں میں نمایاں طور پر اس میں اضافہ دیکھنے کو ملا۔یوکرین کے حملے کے بعد روس اس سال مارچ سے رعایتی نرخوں پر تیل فروخت کر رہا ہے۔ مارچ میں روس سے چین اور انڈیا کی مشترکہ تیل کی درآمدات یورپی یونین کے 27 رکن ممالک کی تیل کی مجموعی درآمدات سے بھی بڑھ گئی تھی۔واضح رہے کہ کئی اور ممالک نے بھی رعایتی روسی خام تیل کا فائدہ اٹھایا ہے۔ مثال کے طور پر سری لنکا، جو شدید اقتصادی بحران سے دوچار ہے۔یوکرین پر حملے کے بعد روس کے یورل نامی خام تیل کے خریداروں میں واضح کمی واقعی ہوئی۔ کچھ غیر ملکی حکومتوں اور کمپنیوں نے روس کی توانائی کی برآمدات کو روکنے کا فیصلہ کیا جس سے روسی تیل کی قیمت گرنا شروع ہو گئی۔ رواں برس کے آغاز میں ایک موقع پر روسی یورال خام تیل عالمی معیار کے برینٹ کروڈ کے مقابلے میں 30 ڈالر فی بیرل سے زیادہ سستا تھا۔ ستمبر کے آخر تک، یہ تقریبا 20 ڈالر فی بیرل سستا تھا۔ چین کے سرکاری تیل کے ادارے بیرون ملک سے تیل کی خریداری کے لیے امریکی ڈالر کے بجائے چینی کرنسی کا زیادہ استعمال کر رہے ہیں۔چین اپنی زیادہ تر گیس پائپ لائن کے ذریعے وسطی ایشیا سے درآمد کرتا ہے۔ اس وقت ترکمانستان سب سے بڑا سپلائی کرنے والا ملک ہے۔لیکن ایک بار ایک نئی پائپ لائن، جسے پاور آف سائبیریا کہا جاتا ہے، اس دہائی کے آخر میں مکمل ہو جائے گی، جس کے بعد روس چین کو گیس فراہم کرنے والے سب سے بڑا سپلائر کے طور پر اُبھر کر سامنے آ سکتا ہے۔ اور رواں برس روس سے مائع قدرتی گیس کی درآمدات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، حالانکہ چین کی زیادہ تر ایل این جی اب بھی دوسرے ممالک سے آتی ہے۔چین نے روسی ایل این جی کو بحیرہ آرکٹک کے رستے منتقل کرنے کے نئے معاہدوں پر بھی دستخط کیے ہیں۔ ستمبر میں، روس کی گیز پروم اور چائنا نیشنل پیٹرولیم کارپوریشن نے روسی گیس کی ادائیگی کے لئے ڈالر کی بجائے روسی روبل اور یوآن استعمال کرنے پر اتفاق کیا ہے۔