بلا شبہ موجودہ تعلیمی زبوں حالی میں جامعہ پشاور کی حالت کی مثال کچھ اس طرح سمجھی جاسکتی ہے کہ ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ سے کوئی نازک مریض قدرے سنبھلنے کے بعد معمول کے وارڈ میں منتقل ہوگیا ہو۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ تعلیمی بجٹ میں مطلوبہ اضافے کی بجائے مسلسل کٹوتی کے سبب خیبر پختونخوا کی پرانی جامعات ابتری کی اس حالت تک پہنچ گئی ہیں کہ پنشن تو دور کی بات اپنے ملازمین کو ماہانہ تنخواہ اور قانونی مراعات یا الاؤنسز کی ادائیگی کی پوزیشن میں بھی نہیں۔ ایسے میں جامعہ پشاور کو بیسک پے کی ابتر حالت سے نکال کر اس قابل بنانا کہ ملازمین کو اپنی پوری تنخواہیں بر وقت ملتی رہیں یقینا ایک بڑا کام ہے۔ اب کوئی مانے یا نہ مانے لیکن کریڈٹ یونیورسٹی کے موجودہ سربراہ کو ملنا چاہئے۔اب قابل غور اور توجہ طلب امر یہ ہے کہ بہتری اس کے باوجود واقع ہوئی کہ انتظامیہ اور فیکلٹی کے مابین جاری رسہ کشی تھمنے کانام ہی نہیں لے رہی۔ یہ بات سمجھنا بالکل بھی مشکل نہیں کہ اگر انتظامیہ اور فیکلٹی ایک پیج پر ہوتیں تو مالی حالت اس سے بھی کہیں بہتر ہوتی۔ گزشتہ کچھ عرصے سے جو وقت چپقلش اور مقدمہ بازی میں ضائع ہوا اگر انتظامیہ او ر فیکلٹی اس کی بجائے جامعہ کی بہتری،مستعد
انتظام و انصرام اور سب سے بڑھ کر مالی مشکلات پر قابو پانے کیلئے مشترکہ کاوشیں بروئے کار لاتیں تو بلا شبہ پنشن کی ادائیگی میں بھی کوئی رکاوٹ پیش نہ آتی۔ ممکن ہے کہ بعض عناصر ایسے بھی ہوں گے جو دوسروں کے کندھے پر بندوق رکھ کر وار کرنے جیسے طرز عمل میں ملوث ہوں گے مگر ان کی حیثیت آٹے میں نمک کے برابر ہوگی ان سطور میں اس سے قبل بھی مخلصانہ رائے دی گئی ہے کہ جامعہ کے سربراہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ٹیچنگ اورنان ٹیچنگ سٹاف دونوں کو ساتھ ملا کرآگے بڑھنے کی سعی کریں کیونکہ ان ملازمین بالخصوص فیکلٹی میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو اپنے اثر رسوخ اور رسائی کی بدولت صوبائی،قومی اور بین الاقوامی سطح پر یونیورسٹی کے مفاد میں بہت کچھ حاصل کرسکتے ہیں۔ اس طرح پنشن کے گھمبیر مسئلے سے نمٹنے کا ایک موثر طریقہ بھی حال ہی میں انہی سطور میں بتایا گیا ہے مگر شومئی قسمت کہ مفاہمت اور یگانگت کے احساس اور جذبے پر انانیت اور ضد کی سوچ غالب آتی ہے اور یوں معاملات سلجھنے کی بجائے بگاڑ کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ سوچنے کا مقام ہے کہ مادر علمی کے پہلو میں ان کے اپنے سابقہ کالجز جو اب انجینئرنگ یونیورسٹی، زرعی یونیورسٹی اور اسلامیہ یونیورسٹی کے نام سے قائم ہیں کی مالی حالت کیا ہے؟۔ کیا یہ بات ڈھکی چھپی ہے کہ مذکورہ تینوں یونیورسٹیاں تو اشتہارات کے ذریعے آنے والے پیسے بھی دیگر اخراجات میں خرچ کر دیتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جامعہ کی انتظامیہ اور فیکلٹی کے مابین موجودہ تنازعہ جس نے مقدمہ بازی کی شکل اختیار کر رکھی ہے ٹیچرز کمیونٹی سنٹر کی باگ ڈور انتظامیہ کی طرف سے ہتھیانے جبکہ ٹیچر ز ایسوسی ایشن کی جانب سے اپنے پاس رکھنے کی کوششوں کے سبب اٹھ کھڑا ہوا ہے دیکھا جائے تو ایک عرصہ سے جامعہ کی حالت بھی ملکی سیاست کی راہ پر چل پڑی ہے وہاں پر بھی مقدمہ بازی اور الزام تراشی کو
باقیماندہ سب کچھ پر ترجیح دی گئی ہے جبکہ یہاں پر بھی مادر علمی میں حقیقی تعلیمی ماحول کی بحالی اور مستحق طلباء اور نادار ملازمین کی فلاح و بہبود نیز یونیورسٹی کو مالی ابتری سے مکمل طور پر نکالنے جیسے مقاصد کو نظر انداز کرنا معمول بن گیا ہے جامعہ کے بہی خواہ غیر جانبدار اور حقیقت پسند حلقوں کا یہ استفسار جواب طلب ہے کہ جھگڑا آخر ہے کس بات پر؟ کیا یونیورسٹی میں کوئی قاعدہ قانون یا بہ الفاظ دیگر ایکٹ اور سٹیچیوٹس موجود نہیں؟ جس کی پاسداری اور پابندی سب کیلئے لازمی ہوگی‘ انتظامیہ کا یہ موقف بحث طلب ہے کہ ٹیچرز کمیونٹی سنٹر ان کے نزدیک ریاست کے اندر ایک الگ ریاست بنائی گئی ہے؟ کہتے ہیں کہ ٹیچرز کمیونٹی میں قائم گیدرنگ ہال کو یونیورسٹی کے تمام ملازمین نے مشترکہ مالی اخراجات کرکے تعمیر کیا ہے؟ مطلب یہ کہ یہ محض ٹیچرز کمیونٹی کا نہیں ہے تقریباً ایسا ہی موقف انتظامیہ کا بھی ہے بہر کیف اگر ایسا بھی ہو تو اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ مسئلے بلکہ تنازعے کا حل بات چیت اور افہام و تفہیم سے ممکن نہیں اگر جامعہ کے قواعد وضوابط اور ایکٹ میں اسکے حل کا کوئی فارمولہ موجود نہ ہو تو اساتذہ کو اعتماد میں لیکر جامعہ کی قانونی باڈیز کے ذریعے قواعد و ضوابط اب بھی بن سکتے ہیں۔