اسٹینفرڈ: دیرینہ زخم اور ناسور بہت مشکل سے بھرتے ہیں۔ اب ماہرین نے زخم پر رکھنے کا ایسا پیوند بنایا ہے جو ہلکی بجلی خارج کرکے زخم کو تیزی سے مندمل کرتا ہے۔
ایک عرصے سے ماہرین کہتے رہے ہیں کہ ناسور پر ہلکی بجلی دے کر انہیں بھرا جاسکتا ہے جس کے بعد اسٹینفرڈ یونیورسٹی کے ماہرین نے ہائیڈروجل اور برقی سرکٹ پر مشتمل پھایہ بنایا ہے جس کے حوصلہ افزا نتائج سامنے آئے ہیں۔ ذیابیطس کے مریضوں کے زخم مشکل سے بھرتے ہیں اور بسا اوقات اعضا کی بریدگی سمیت جان لیوا بھی ہوسکتے ہیں۔ اسمارٹ بینڈیج یہ مسئلہ بھی حل کرسکتی ہے۔
جیان چینگ لائی اور ان کی ٹیم نے دو تہوں پر مشتمل پٹی کے اوپر 100 مائیکرون پتلی پالیمر پرت چڑھائی ہے جس پر سارے سرکٹ بنے ہیں۔ اس کے نیچے لچکدار پرت ہے جو ہائیڈروجل پر مشتمل ہے اور وہی زخم سے براہِ راست مس ہوتی ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ اس میں بایوسینسر بھی ہے جو درجہ حرارت اور برقی سرگرمی (امپیڈینس) نوٹ کرتے ہیں۔ زخم بڑھنے سے امپیڈنس بڑھتی ہے اور زخم کا درجہ حرارت کم ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ اب اگر زخم بھرنے کا عمل سست روی کا شکار ہو تو یہ ازخود بجلی خارج کرتی ہے۔ اس سے ناسور تیزی سے بھرنے لگتا ہے اور جلد کے خلیات (کیراٹینوسائٹس) جمع ہونے کی رفتار بڑھ جاتی ہے۔ اس کے ساتھ زخم کے بیکٹیریا بھی مرنے لگتے ہیں۔
پٹی پر ایک باریک ریڈیو اینٹینا لگا کر اسمارٹ فون ایپ تک اس کی تفصیلات فراہم کی جاسکتی ہیں۔ اس معلومات کو ڈاکٹر یا تیماردار دیکھ کر زخم کی کیفیت جان لے گا اور مناسب اقدامات میں مدد مل سکتی ہے۔ اس کے لیے بار بار پٹی کھولنے کی ضرورت بھی نہیں رہے گی۔ پٹی الگ کرنے کے لیے اسے 40 درجے تک گرم کیا جائے تو ہائیڈروجل ازخود الگ ہوجاتا ہے۔
جب اسے زخموں پرآزمایا گیا تو ان کے بھرنے کی رفتار 25 فیصد تک بڑھی اور نئی جلد بننے کی شرح 50 فیصد تک جا پہنچی۔ تاہم اسے تجارتی پیمانے پر تیاری میں کچھ وقت لگے گا۔ دوسری جانب ماہرین اس کی لاگت کم کرنے کی سر توڑ کوشش کر رہے ہیں۔
ماہرین کے مطابق اس میں مزید سینسر کا اضافہ ممکن ہے جن میں میٹابولائٹس، بایومارکر اور پی ایچ وغیرہ کی شرح شامل ہے۔ اسمارٹ پٹی ازخود عمل کرتی ہے، زخم بھرتی ہے اور اس کا احوال اسمارٹ فون تک پہنچا سکتی ہے۔ اس لحاظ سے یہ ایک منفرد ایجاد ہے۔