ڈیوٹی ہو تو اسی طرح

پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس جناب جسٹس قیصر رشید خان کے دورہ جامعہ پشاور کے موقع پر انتظامیہ کی طرف سے فرائض کی بجا آوری اور مستعدی کے جو مناظر دیکھنے میں آئے بہت سارے سنجیدہ بہی خواہوں کے نزدیک یہی طرز عمل روزانہ کا معمول بلکہ انتظامیہ کا شعار ہونا چاہئے صفائی کی حالت اور ٹریفک کی ہیجان خیزی بھی کنٹرول نظر آئی‘ یہاں تک کہ روڈ نمبر2 کے انجینئرنگ چوک سے پوسٹ مال چوک تک انجینئرنگ یونیورسٹی کے نیو اکیڈمک بلاک کی جن گاڑیوں نے سڑک کیساتھ ساتھ دونوں جانب فٹ پاتھ پر جو قبضہ عرصہ سے جمائے رکھا ہے وہ بھی چند گھنٹوں کیلئے واگزار دیکھنے میں آیا مذکورہ تمام گاڑیاں اکیڈمک بلاک کی چار دیواری کے اندر بلاک کے احاطے میں کھڑی نظر آئیں اور یوں یہ بات ثابت ہوگئی کہ روڈ کو پارکنگ میں تبدیل کرنا نہ صرف ایک نامناسب غلط اور غیر قانونی طرز عمل ہے بلکہ یہ تمام گاڑیاں اکیڈمک بلاک کے احاطے میں کھڑی کی جا سکتی ہیں مگر کیا کریں کہ کیمپس کوارڈی نیشن کمیٹی ماضی کا قصہ بن گئی ہے اور یونیورسٹی انتظامیہ اور کیمپس پولیس بے بسی کا رونا رو رہی ہے‘ چیف جسٹس صاحب کے دورے کے دوران انتظامیہ نے جس مستعدی سے بلا ضرورت بے شمار ٹوسٹروک اور فورسٹروک رکشوں اور پک اینڈ ڈراپ گاڑیوں کو کنٹرول کیا یہی طریقہ انتظامیہ کا معمول ہونا چاہئے کاش کہ جناب چیف جسٹس صاحب جناح کالج اور ہوم اکنامکس کالج کی طرف بھی تشریف لے جاتے تو کم از کم ایک دن یا چند گھنٹوں کیلئے تو وہاں پر بھی سڑک کے دونوں جانب بلکہ عین روڈ پر قائم اڈے ختم ہو جاتے‘ ان سطور میں یونیورسٹی کیمپس بالخصوص  پشاور یونیورسٹی میں ٹک ٹاک وباء کے وارد ہونے کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے جس کی ویڈیو آئے روز سوشل میڈیا پر وائرل ہو کر مادر علمی کی بدنامی کا باعث بن رہی ہیں اور سکریچنگ والی گاڑیوں اور ون ویلنگ والی موٹر سائیکلوں کی جانب انتظامیہ کی توجہ دلانے کی کوشش بھی کی گئی ہے مگر تاحال نہ صرف مسئلہ جوں کا توں  ہے بلکہ اب تو ایسی سکریچنگ والی گاڑیاں بھی کیمپس پہنچ گئی ہیں جنہوں نے اپنی چھت پر ایمرجنسی والی سائرن لائٹ بھی لگا رکھی ہیں اور دن بھر طالبات کو ہراساں کرنے میں لگی رہتی ہیں ان سرپھروں کا تو نہایت آسان علاج ہے کہ انہیں پکڑ کر گاڑی سمیت تھانہ میں بند کر دیا جائے اور پھر اپنے والدین کی ضمانت کے بغیر نہ چھوڑا جائے یہی طریقہ ون ویلنگ والی موٹر سائیکلوں اور ٹک ٹاکر کے معاملے میں بھی بروئے کار لایا بلکہ آزمایا جاسکتا ہے اگر ایسا نہ ہوا تو حالت مزید بگاڑ اور ابتری میں تبدیل ہوگی اب روزانہ تو وی آئی پی دورہ نہیں ہو سکتا کہ انتظامیہ اور پولیس الرٹ اور ڈیوٹی پر موجود رہیں گی یہ بات اپنی جگہ کہ پولیس اور یونیورسٹی سیکورٹی گارڈز روزانہ اپنی ڈیوٹی پر موجود رہتے ہیں لیکن جب تک افسران ان کی قیادت اور نگرانی نہ کریں تب تک کسی سپاہی اور سیکورٹی گارڈ سے کسی قابل ذکر کارکردگی کی توقع نہیں رکھی جا سکتی ٹریفک‘ سیکورٹی اورصفائی کی ابتر حالت کیساتھ ساتھ یونیورسٹی ملازمین کے بھی بہت سے مسائل‘ شکایات اور تحفظات ہونگے جبکہ سب سے گھمبیر مسئلہ تو مالی ابتری کا ہے جس پر قابو پانے میں تاحال حکومت ایک قدم بھی آگے نہیں آئی ہے اس صورتحال میں پشاوریونیورسٹی  ٹیچرز ایسوسی ایشن یعنی پیوٹا کے سالانہ انتخابات کی مہم بھی زور شور سے جاری ہے جس میں فرینڈز گروپ جو کہ اس وقت بھی برسراقتدار اور مدمقابل انٹولیکچول فورم کے مابین مقابلہ ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ پولنگ سے ایک رات قبل29نومبر کو پیوٹا کی جو روایتی جنرل باڈی ہونیوالی ہے اس میں دونوں گروپوں کے نامزد صدارتی امیدوار اپنے اپنے ایجنڈے میں متذکرہ مسائل کے بارے میں کیا لائحہ عمل پیش کرتے ہیں بلاشبہ کہ اساتذہ جامعہ کے سٹیک ہولڈر ہیں اگر انہوں نے اس جانب توجہ نہیں دی تو یہ بات ذہن نشین ہونی چاہئے کہ یونیورسٹی کیمپس بالخصوص پشاور یونیورسٹی کی حالت ہر لحاظ سے اس قدر ابتر اور دگرگوں ہو جائے گی کہ اس کا سنبھالنا پھر کسی کے بس میں بھی نہیں ہوگا۔