اہم واقعات (سید ابو یاسر)



قدرت اللہ شہاب کی عملی زندگی اہم واقعات سے بھر پور ہے کیونکہ وہ قیام پاکستان سے قبل اور بعد ازاں اہم ترین انتظامی عہدوں پر فائز رہے،ا سکے ساتھ ساتھ خدا نے ان کو زور قلم سے بھی نوازا تھا،ان کی آپ بیتی کا شمار قارئین میں مقبول ترین کتابوں میں سے ہوتا ہے، ایک مقام پر وہ لکھتے ہیں ایک آفیسر میاں محمد سعیدکو راولپنڈی سے پچاس ہزار روپے کی رقم دیکر تنخواہیں تقسیم کرنے کیلئے پلندری بھیجا گیا سڑک بھی خراب تھی اور بارش بھی موسلادھار برس رہی تھی آزاد کشمیر کے علاقے میں جیپ پھسل کر ایک گہری کھڈ میں جاگری‘ میاں سعید کو نہایت شدید زخم آئے اور بہت سی ہڈیاں بھی ٹوٹ گئیں‘اپنی تکلیف بھلا کر انہوں نے پچاس ہزار روپے کی رقم کا بیگ اپنی بغل میں دبایا اور اس کی حفاظت کیلئے مستعد ہوکر بیٹھ گئے‘ حادثہ کی خبر سن کر آس پاس کے بہت سے دیہاتی بھی جائے وقوعہ پر جمع ہو گئے‘انہیں جب معلوم ہوا کہ شدید زخموں کے باوجود میاں صاحب سرکاری رقم کی حفاظت کی وجہ سے پریشان ہیں تو سب نے مل کر بہ یک آواز درخواست کی کہ وہ آرام سے لیٹ جائیں‘ یہ رقم بیت المال کی امانت ہے‘ اس کی حفاظت کرنا ہمارا فرض ہے‘ کئی گھنٹوں کے بعد جب ایک امدادی ٹیم وہاں پہنچی تو میاں صاحب زخموں کی تاب نہ لاکر نڈھال ہو چکے تھے اور سرکاری رقم دیہاتیوں کی حفاظت میں جوں کی توں موجود تھی۔جس مقام پر اب منگلا ڈیم واقع ہے وہاں پر پہلے میر پور کا پرانا شہر آباد تھا‘ایک روز میں ایک مقامی افسر کو اپنی جیپ میں بٹھائے اس کے گردونواح میں گھوم رہا تھا‘راستے میں ایک مفلوک الحال بوڑھا اور اس کی بیوی ایک گدھے کو ہانکتے ہوئے سڑک پر آہستہ آہستہ چل رہے تھے‘دونوں کے کپڑے میلے کچیلے اور پھٹے پرانے تھے‘ دونوں کے جوتے بھی ٹوٹے پھوٹے تھے‘ انہوں نے اشارے سے ہماری جیپ کو روک کر دریافت کیا”بیت المال کس طرف ہے؟“آزاد کشمیر میں سرکاری خزانے کو بیت المال ہی کہاجاتا تھا‘میں نے پوچھا ”بیت المال میں تمہارا کیا کام؟“بوڑھے نے سادگی سے جواب دیا”میں نے اپنی بیوی کیساتھ مل کر میرپور شہر کے ملبے کو کرید کرید کر سونے اور چاندی کے زیورات کی دو بوریاں جمع کی ہیں اب انہیں اس کھوتی پر لاد کر ہم بیت المال میں جمع کرانے جارہے ہیں“ہم نے ان کا گدھا ایک پولیس کانسٹیبل کی حفاظت میں چھوڑا اور بوریوں کو جیپ میں رکھ کر دونوں کو اپنے ساتھ بٹھا لیا تاکہ انہیں بیت المال لے جائیں۔آج بھی جب وہ نحیف ونزار اور مفلوک الحال جوڑا مجھے یاد آتا ہے تو سر شرمندگی اور ندامت سے جھک جاتا ہے کہ جیپ کے اندر میں ان دونوں کے برابر کیوں بیٹھا رہا‘مجھے تو چاہئے تھا کہ میں ان کے گرد آلود پاؤں اپنی آنکھوں اور سر پر رکھ کر بیٹھوں‘ ایسے پاکیزہ سیرت لوگ پھر کہاں ملے ہیں؟ اب انہیں ڈھونڈچراغ رخ زیبا لے کر!۔اپنی آپ بیتی کے ایک اور باب میں وہ آزاد کشمیر میں اپنی ملازمت کے احوال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ24 اکتوبر1947ء کو آزاد کشمیر حکومت کے قیام کی خبر سنتے ہی میں فوراً چوہدری محمد علی سیکرٹری جنرل کی خدمت میں حاضر ہوااور ان سے درخواست کی کہ مجھے فوراً تراڑ خیل روانہ ہونے کی اجازت عطا فرمائی جائے تاکہ میں اس نئی حکومت کی کوئی خدمت بجا لا سکوں‘چوہدری صاحب مسکرائے اور بولے ”جذباتی نہ بنو‘ پاکستان صرف دو ڈھائی ماہ پہلے وجود میں آیا ہے یہاں پر بھی خدمت کی بہت گنجائش ہے‘میں مایوس ہو کر واپس آ گیا کام تو میں وزارت تجارت میں انڈر سیکرٹری کے طور پرکرتا رہا‘ لیکن دل بدستور آزاد کشمیر میں اٹکا رہا پھر مارچ1948ء میں اچانک چوہدری محمد علی صاحب نے ایک روز مجھے اپنے دفتر میں بلا کر یہ مژدہ سنایا کہ تمہیں آزاد کشمیر حکومت میں جا کر کام کرنے کی اجازت ہے‘ چلتے چلتے چوہدری محمدعلی نے مجھے ایک اور مشورہ بھی دیا تم نوجوان اور نو آموز ہوکام نیا اور مشکل ہے‘اس لئے پھونک پھونک کر قدم رکھنا۔“ ان منتخب اقتباسات کا حاصل مطالعہ جہاں مشکل حالات میں فرائض کی بخوبی انجام دہی  اور سہولیات و آسائشوں کے مقابلے میں مشکلات کا سامنا کرنے کا جذبہ ہے۔