لوک دانش سے مکالمہ (یادش بخیر)


(روزنامہ آج میں شائع ہونے والے کالم جو اپنی اشاعت پر قارئین نے بے حد پسند کئے، ان سدا بہار کالموں سے انتخاب کا سلسلہ قارئین کی دلچسپی کے لئے شروع کیا گیا ہے‘ ان کالموں میں اعدادوشمار اور حالات کالم کی تحریر کے وقت کی عکاسی کرتے ہیں).................
میں جب بھی گاؤں جاتا ہوں تو دین محمد عرف بابا دینا سے ضرور ملتا ہوں۔بابا دینا ہمارے گاؤں کا معمر ترین بزرگ ہے۔بتانے والے اس کی عمر ۹۰۱ برس بتاتے ہیں۔ وہ اب تک اپنے گھر کے کام اپنے ہاتھوں سے کرتا ہے۔اس بار جب میں گاؤں گیا تو”بابے دینے“ سے بھی ملاقات رہی۔باتوں باتوں میں یونہی میں نے اس کی طویل عمر کا راز پوچھاتو اس نے بڑی تفصیل سے اپنے بارے میں بتایا: ”کاکا جیسے کہ تمہیں معلوم ہے کہ میرے دو بیٹے ہیں اور دونوں کماتے ہیں۔ایک تانگہ چلاتا ہے اور دوسرے نے آٹا پیسنے والی چکی لگا رکھی ہے۔مجھے کمانے کی ضرورت نہیں۔مجھے گھر کا چھوٹا موٹا کام کرنے سے بھی منع کرتے رہتے ہیں۔ان کی منشا تو یہ ہے سارا دن گھر میں یا گھر کے باہر چارپائی ڈال کر حقہ پیتا رہوں یا پھر مسجد میں باجماعت نمازیں ادا کرتا رہوں۔میں نماز بھی باجماعت ادا کرتا ہوں لیکن مجھ سے اس عمر میں فارغ نہیں رہا جاتا۔اس لیے گھر”ٹک“ کر بھی نہیں بیٹھ سکتا۔گھر میں مویشیوں کیلئے چارہ بھی لے آتا ہوں۔بعض اوقات جلانے کیلئے ایندھن (بالن) بھی میں خود کاٹ کر لاتا ہوں۔سچی بات تو یہ ہے اگر گھر کے یہ کام چھوڑ کر چارپائی پر بیٹھ جاتا تو اپنے ہم عمروں اور ہانیوں کی طرح میں بھی کب کا قبرستا ن میں پہنچ چکا ہوتا۔میرے بیٹے اور بہویں بہت اچھی ہیں۔میری بیوی تو کئی برس پہلے مجھے تنہا چھوڑ کر اگلے جہان چلی گئی تھی لیکن میں ابھی تک زندگی سے آنکھیں چار کئے بیٹھا ہوں۔اچھا بابا یہ بتائیں صبح سے شام تک کی آپ کی مصروفیات کیا ہیں؟
”صبح سے شام تک کوئی نیا کام تو نہیں کرتا،وہی کرتا ہوں جو برسوں سے کرتا آرہاہوں۔صبح کی اذان کے ساتھ میری آنکھ کھل جاتی ہے۔گہری نیند تو مجھے کبھی آتی نہیں،بس ”جاگومیٹی“کی نیند سوتا ہوں۔معمولی سی آہٹ اور آواز سے میری آنکھ کھل جاتی ہے۔صبح کی نماز مسجد میں مولوی عالم صاحب کیساتھ پڑھتا ہوں۔پھر گھر آکر ناشتہ کرتا ہوں۔“ آپ کا ناشتہ کیا ہوتا ہے؟میں نے قدرے تجسس سے پوچھا تو کہا: ”ناشتہ ہمارا کیا ہوتا ہے۔گھر میں صبح تڑکے ہی لسی تیار ہوجاتی ہے۔رات کو بچی ہوئی روٹی لسی کے ساتھ کھا لیتا ہوں۔پھر میں کھیتوں کی طرف نکل جاتا ہوں۔جہاں سے اپنی بھینس اور بکریوں کیلئے تھوڑا بہت چارہ اکٹھا کر لاتا ہوں۔ کبھی کبھی میری بہویں بھی یہ کام سر انجام دیتی ہیں پر عموماََ میں یہ کام کسی اور کو کرنے نہیں دیتا۔دوپہر کے وقت گھر آکر جو کچھ بھی پکا ہوتا ہوں کھا لیتا ہوں‘پھر عصر اور مغرب کی نماز کیلئے مسجد میں موجود رہتا ہوں۔رات کو مجھے بان بٹنے کی عادت بھی ہے۔گھر کی چارپیاں میرے ہاتھ سے تیار کئے گئے بان سے بنتی ہیں۔ بس یہی صبح سے شام تک کرتاہوں۔لوگ مجھے کام کرتا دیکھ کر حیران ہوتے ہیں۔میر ی عمر کے لوگ توچارپائی پر پڑے ہوتے ہیں یاپھر رات بھر کھاؤں کھاؤں کر تے رہتے ہیں۔بیماریوں نے ان کابرا حال کر رکھا ہے۔“اچھا بابا یہ بتائیے: یہ نئی نسل اپنی صحت کس طرح ٹھیک کر سکتی ہے۔ان کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟ بابا نے کچھ دیر سوچا اور پھر بولا:  ”نئی نسل کی صحت بھلا کس طرح ٹھیک ہو سکتی ہے؟ کاکا نئی نسل ہڈ حرام ہے۔یہ ہاتھ سے کام کرنا چھوڑ گئی ہے۔اب تو لوگ ہل بھی ٹریکٹر سے چلاتے ہیں۔بڑی ترقی جو ہوگئی ہے۔سارے کام مشینوں سے ہونے لگے ہیں۔اس لئے ہر بندہ بیمار رہنے لگاہے۔تم خود دیکھو ہمارے گاؤں میں جوان بھی بوڑھوں کی طرح لگتے ہیں۔معمولی سا پیدل چلنا پڑ جائے تو نوجوان نسل کا سانس پھول جاتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ نئی نسل مشینوں کی عادی ہو گئی ہے۔اوپر سے ٹیلی ویژن موبائلوں اور اخبارات نے لوگوں کی مت مار رکھی ہے۔ہر بات کی خبر ٹی وی پر آجاتی ہے۔لوگوں کو فکر اندیشوں نے بھی تباہ کر دیا ہے۔پہلے زمانے میں بے فکری ہوا کرتی تھی،خالص خوراک ہوا کرتی تھی۔لوگ محنت اور مشقت کے عادی ہوا کرتے تھے تو بیماریاں بھی کم تھیں‘اور لوگوں کی عمریں بھی لمبی ہوا کرتی تھی۔اب تو لوگوں کو اگلے دن کی فکر نے آدھا کر دیا ہے۔ہر ایک کو اپنی پڑی ہوئی ہے۔اصل بات یہ ہے بیٹا جی! تم شہری لوگ اگرموبائل اور ٹی وی دیکھنا کم کر دو تو کبھی بیمار نہ ہو۔اب تو ”ون سونیاں‘‘ بیماریاں موجود ہیں۔ ہمیں تو ان بیماریوں کے نام بھی نہیں آتے۔اوپر سے آپ لو گ ولایتی مرغیاں کھاتے ہو۔وہ بھی مرچ مصالحوں کے ساتھ۔اور تو اور طرح طرح کی مٹھایاں آگئی ہیں۔جن سے ہماری صحت تباہ ہو کر رہ گئی ہے۔ہمارے زمانے میں عموماََ لوگ مٹھائی کیلئے میلہ دیکھنے جایا کرتے تھے۔اب تو گلی گلی میں مٹھائیو ں کی دکانیں کھلی ہوئی ہیں۔یہی حالت گوشت کی ہے۔ گوشت سے فرج بھرے رہتے ہیں۔ویسے بھی رزق اور دولت کچھ زیادہ ہوگئی ہے۔دولت کی ریل پیل سے لوگوں کی حرص وہوس بھی زیادہ بڑھ گئی ہے۔ بندہ اندر سے کلّا (تنہا) ہو کر رہ گیا ہے۔ کئی لوگ میری لمبی عمر کا راز پوچھتے ہیں۔اب انہیں کون بتائے کہ صحت مند رہنے کیلئے کم کھانے کی عادت ڈالنا پڑتی ہے۔کم کھانے والے اوراپنے ہاتھوں سے کام کرنے والوں کو بیماریاں کچھ نہیں کہتیں۔جو لوگ سادہ غذا کھاتے ہیں،چٹنی،دال، سبزی پر گزارہ کرتے ہیں‘ بیمار کم ہی ہوتے ہیں۔وہ تمہارے زمانے کی جدید بیماریوں سے بچے رہتے ہیں۔لیکن چٹ پٹے مصالحے دار کھانے کے عادی لوگ، سادہ غذا کو بھی سٹیٹس کیخلاف سمجھتے ہیں۔ سو وہ بلڈ پریشر، شوگر، گیس اور دل کی بیماریوں میں گھرے رہتے ہیں۔ نوجوانوں کو محنت اور مشقت کی عادت اپنانی چاہئے‘ اب تو گاؤں بھی شہر بنتے جاتے ہیں۔شہر کی ہر شے پنڈمیں بھی ملتی ہے، اس لئے سادہ زندگی سے لوگ دور ہو رہے ہیں۔ اب خود فیصلہ کرو کہ نویں نسل صحت مند کیوں نہیں۔۔“  میں بابا دینا کی باتیں سن کر حیران ہو رہا تھاکہ گاؤں میں رہنے والے ایک ان پڑھ اور عام دیہاتی کا مشاہدہ اور علم اتنا وسیع اور گہرا ہو سکتا ہے؟