خوش تدبیری  (سید ابو یاسر)

قدر ت اللہ شہاب کو معمول کے واقعات کو مخصوص تناظر میں قلمبند کرکے انہیں انفرادیت بخشنے میں ملکہ حاصل ہے، ایک مقام پر رقم طراز ہیں کہ فرض شناسی اور خوش تدبیری کے باب میں رفیع گنج کا تھانیدار بھی اپنی مثال آپ تھا‘رفیع گنج بڑا قصبہ تھااور وہاں کھاتے پیتے مسلمانوں کی اچھی خاصی آبادی تھی ان دنوں صوبہ بہار کے ادبی حلقوں میں حضرت شفق عماد پوری کے کلام کا خواب چرچا تھا ان کی رباعیوں کا ایک مجموعہ شائع ہوکر کافی مقبولیت حاصل کرچکا تھا جب مجھے معلوم ہوا کہ حضرت شفق رفیع گنج ہی میں رہتے ہیں‘تو دل میں ان کی زیارت کا شوق پیدا ہوا۔ایک روز رفیع گنج کا تھانیدار اورنگ آباد آیا تھا میں نے اس سے کہا کہ میں اگلے روز اس کے تھانے کا معائنہ کرنے آرہا ہوں شامت اعمال سے میں نے اتنا اور بھی کہہ دیا کہ رفیع گنج میں ایک صاحب شفق عماد پوری رہتے ہیں میرے پہنچنے تک وہ ان کا اتاپتا معلوم کر کے رکھے‘ بس اب کیا تھا بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا راتوں رات پولیس کے سپاہیوں نے شفق صاحب کا سراغ لگایا اور نصف شب کے قریب انہیں کشاں کشاں لاکر تھانیدار صاحب کے روبرو پیش کردیا۔اگلے روز دوپہر کے قریب تھانے کی انسپکشن سے فارغ ہوکر میں نے تھانیدار سے دریافت کیا کہ کیا انہوں نے معلوم کرلیا ہے کہ شفق صاحب کہاں رہتے ہیں؟حاضر حضور۔ تھانیدار صاحب نے اٹینشن ہوکر جواب دیا اور ایک سنتری کو زور سے پکار کر کہا’سیخ سپخ کو ترنت حاضر کرو۔آناً فاناً ایک طرف سے دو تین سپاہیوں کے نرغے میں مجرموں کی طرح گھرے ہوئے ایک سفید ریش‘ضعیف البدن بزرگ نمودار ہوئے‘میں ڈرتے ڈرتے اٹھا اور آگے بڑھ کر سلام کیا‘ شفق صاحب کو ثقل سماعت کا عارضہ تھا اس لئے میرا سلام انہیں سنائی نہ دیا‘ تھانیدار لپک کر آگے بڑھا اور اپنا منہ ان کے کان کے پاس لاکر زور سے چیخا‘ ابے سیخ‘ایس ڈی او صاحب بہادر ہیں‘سلام کرو‘۔شفق صاحب نے فوراً حکم کی تعمیل کی اور بڑے سلیقے سے جھک کر مجھے سلام کیا‘مجھ پر گھڑوں پانی تو پہلے ہی پڑا ہوا تھا اب تو میں بالکل غرق ہوگیا‘شفق صاحب کو جیپ میں بٹھا کر انہیں ان کے گھر لے گیا‘بڑی منت سماجت سے اصلی ماجرا سنایا‘ اور ’ادبی دنیا‘ کے چند پرچے ان کی نذر کئے جن میں میرے کچھ افسانے چھپ چکے تھے‘جب شفق صاحب کو تھانیدار کی حماقت اور میری بے گناہی کا یقین ہوگیا تو وہ مسکرادیئے۔“اس منتخب اقتباس کا حاصل مطالعہ عام زندگی میں پیش آنے والے ایسے واقعات ہیں جہاں بات کو پوری طرح نہ سمجھنے سے معاملہ مختلف صورت اختیار کر جاتا ہے۔