(روزنامہ آج میں شائع ہونے والے کالم جو اپنی اشاعت پر قارئین نے بے حد پسند کئے، ان سدا بہار کالموں سے انتخاب کا سلسلہ قارئین کی دلچسپی کے لئے شروع کیا گیا ہے‘ ان کالموں میں اعدادوشمار اور حالات کالم کی تحریر کے وقت کی عکاسی کرتے ہیں).................
لاہور کو پنجاب کا دل بھی قرار دیا جاتا ہے۔اِن دنوں اس دل کی شریانیں سکڑ تی جارہی ہیں ان میں لہو کی روانی متاثر ہو رہی ہے۔دوسرے معنوں میں یہ کہہ لیں کہ لاہور کی سڑکیں وبال ِجان بن چکی ہیں اور لوگ کئی کئی گھنٹے ٹریفک میں پھنسے رہتے ہیں۔ پچھلے دو روز سے تو آسمان سے زمین تک عجیب سی دھند چھائی ہوئی ہے جبکہ ابھی سردی بھی نہیں آئی۔بتایا جاتا ہے کہ یہ فوگ نہیں سموگ ہے۔اِس دھواں آلود فضا میں سانس لینا دشوار ہو گیا ہے۔گلے اور آنکھوں کی بیماریاں پھیلنے لگی ہیں حکومت کی طرف سے اشتہار ات میں بتایا جارہا ہے کہ غیر ضروری طور پر گھر سے باہر نہ نکلیں اگر نکلیں تو منہ پر رومال یا ماسک پہن کر اور عینک لگا کرنکلیں اور سنیں! شہر کی فضا دھند آلود ہوتے ہی، ماسک اور عینک بیچنے والوں کی چاندی ہوگئی ہے، انہوں نے دام بڑھا دئیے ہیں۔ عام آدمی یا مزدور طبقہ عینک یا ماسک کہاں افورڈ کر سکتا ہے؟ شہر کی سڑکوں پر رینگتی گاڑیوں میں بیٹھے لوگ نہ صرف سخت ڈپریشن کا شکار ہیں بلکہ سخت مایوس اور بددل بھی ہیں گاڑیاں بھی اِس قدر بڑھ چکی ہیں کہ لاہور میں سڑکوں پر کاریں ہی کاریں دکھائی دیتی ہیں۔سڑکیں وہی ہیں مگر ان پر چلنے والی گاڑیوں کی تعداد سو فیصد بڑھ چکی ہے۔اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ کسی بھی سڑک پر کوئی ہیوی ٹرک،چھکڑا، کرین اور ٹرالر آجائے تو سارا ٹریفک چیونٹیوں کی طرح رینگنے لگتا ہے۔گاڑیوں کی قطاریں مزید لمبی ہوجاتی ہیں۔ یہی نہیں، موٹر سائیکل والے حضرات اپنے مخصوص ٹریک پرچلنے کی بجائے سڑک کے عین درمیان میں چلتے ہیں۔ ایک اور بات،لاہور میں کوئی ایسی سڑک نہیں جہاں تجاوزات نہ ہوں۔سڑکوں کے بیشتر حصے، انہی تجاوزات کی زد میں ہونے سے بھی ٹریفک اکثرجام رہتی ہے۔ایک زمانے میں سڑکوں،بازاروں کے تجاوزات ختم کرنے کے لئے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف نے اپنے آ ہنی ہاتھ دکھائے تھے مگر اپنے موجودہ دور میں وہ تجاوزات ختم کرانے کی بجائے، سڑکیں کھدوانے میں زیادہ مصروف نظر آتے ہیں۔بغیر متبادل رستہ دئیے، سڑکوں کو بند کر دیا جاتا ہے۔ویگنوں اور بسوں والے بھی اپنی سواریاں اٹھانے کے لئے بس سٹاپ کی مخصوص جگہ چھوڑ کر غلط مقامات پر کھڑے ہوجاتے ہیں۔انہیں اس کی کوئی پروا نہیں ہوتی کہ کس طرح لوگ پریشان ہورہے ہیں۔انہیں اپنی سواریاں اتارنے اور چڑھانے کے علاوہ کچھ دکھائی نہیں دیتا۔لاہور کے درمیان نہر کی سڑک پر سست رو ٹریفک کو روکنا نہایت ضروری ہے مگر بر وقت اس پر کاروائی نہیں ہوتی جس سے عموماََ دفتری اوقات یا سکول ٹائم میں ٹریفک آپے سے باہر ہو جاتی ہے۔پولیس کی کوتاہیاں اور قانون کی پاسداری نظر نہ آنا اپنی جگہ مگر عوام میں بھی تو صبر ، برداشت اور ایثار عنقا ہو چکا ہے۔کوئی کسی دوسرے کو راستہ دینے کیلئے تیار نہیں ہوتا۔اسے تو بس صرف اور صرف خود جلدی سے اپنا راستہ بنا کر نکلناہوتا ہے یہی سوچ جب ہر شخص کی ہوگی تو ٹریفک کی روانی کیسے جاری رہ سکتی ہے؟غلط ڈرائیونگ سے حادثات جنم لیتے ہیں اور بعض اوقات تو سڑک کے بیچ ہی میں کھڑے ہو کر لوگ ایک دوسرے کی غلط ڈرائیونگ پر لڑنا شروع ہو جاتے ہیں۔غلطی کسی ایک کی ہوتی ہے مگر اس وقت دونوں ایک دوسرے کو سبق سکھانے کے درپے ہو جاتے ہیں جبکہ انکے اس عمل سے ٹریفک جام ہو کر رہ جاتا ہے اورگاڑیوں کی قطاریں مزید طویل ہو جاتی ہیں۔ آجکل دھند کے سبب کچھ دکھائی نہیں دیتا۔سواندھا دھند ڈرائیونگ کرنیوالے دوسروں کیلئے مصیبت بنے ہوئے ہیں۔