(روزنامہ آج میں شائع ہونیوالے کالم جو اپنی اشاعت پر قارئین نے بے حد پسند کئے، ان سدا بہار کالموں سے انتخاب کا سلسلہ قارئین کی دلچسپی کے لئے شروع کیا گیا ہے‘ ان کالموں میں اعدادوشمار اور حالات کالم کی تحریر کے وقت کی عکاسی کرتے ہیں)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم اِس اشتہار کو تقریباً چالیس سال سے پڑھ رہے ہیں کہ ”شادی سے پہلے یا شادی کے بعد“ اس کے مندرجات بعض احباب کے نزدیک تحفظات کے حامل ہیں‘ مگر ہمارا آج کا موضوع ان اشکالات سے مبرا ہے‘ ہمارے ہاں بننے والی میٹرو بس سروس اِس صوبے کا میگا منصوبہ سہی اِس پر اربوں کی لاگت اپنی جگہ اور شاید اِسی لئے شہر پشاور کے باسی نہ صرف ٹریفک کی بدنظمی کو سہتے جا رہے ہیں بلکہ منوں کے حساب سے گرد و غبار روزانہ ہضم کر رہے ہیں‘ اس حوالے سے حکومت اور میٹرو بس تعمیر کرنیوالے اپنی ایک حکمت عملی رکھتے ہیں اور اسی کے تحت اب نہ صرف وہ سڑک نظر آ رہی ہے جس پر اس بس نے چلنا ہے بلکہ اسکے ارد گرد کھڑی کی جانیوالی دیواریں اسکی سرحدات کا بھی تعین کررہی ہیں‘ شہر پشاور سے باہر سب سے پہلے بسائی جانیوالی بستی جسے گلبہار کا نام اس لئے دیا گیا تھا کہ اسکے خدوخال سے گلوں جیسی خوبصورتی اور بہار جیسا منظر عیاں ہو سکے‘ اس بستی نے کچھ عرصہ یقینا اپنے بسائے جانیوالوں کو مایوس نہ کیا مگر رفتہ رفتہ اسکی وہ خوبصورتی ماند پڑتی گئی جسکی وجہ سے اب اسکے رہنے والے یہاں سے بھاگنے کی کوشش کر رہے ہیں‘ہمیں شیخ صاحب کی طرح کوئی پیش گوئی تو نہیں کرنی مگر یہ ضرور کہنا ہے کہ میٹرو کا حوالہ ہم نے اسلئے دیا کہ موجودہ حکومت نے پہلے ہی سال میں گلبہار میں اگر کوئی منصوبہ تعمیراتی حوالے سے شروع کیا تو وہ اسکی وہ متوازی سڑک تھی جس کا نالہ آج ساڑھے تین چار سال بعد بھی بن رہا ہے اور یہ میٹرو کے بعد بھی بنتا ہی رہے گا‘اسکی کل لمبائی ایک کلو میٹر سے کم ہے اور یہ برادرِ عزیز شوکت یوسفزئی کی نیابت کا وہ حصہ ہے جس نے انہیں اپنے ووٹوں سے یوں نوازا جیسے اس پر اندھا اعتماد تھا‘ اس نالے کے راستے کے ایک کوچہ میں برادر یونس الٰہی ظہیر کی بھی رہائش گاہ ہے جو میرے نزدیک پی ٹی آئی کے سب سے متحرک کارکن تھے‘ تھے اس لئے کہا کیونکہ ان کی قسمت میں پشاور کی نظامت اور ان کی جماعت میں مردم شناسی کی صلاحیت نہ تھی‘ ورنہ جس طرح گولی کان کے پاس سے گزرتی ہے پشاور کی نظامت اسی طرح ان کے کان کے نزدیک سے گزری‘ اسی لئے شاید انکے نام کا قدآور بورڈ تو اب تک وہیں ایستادہ ہے مگر نہ تو وہ خود نظر آتے اور نہ ان کی خبریں ہی دِکھائی دیتی ہیں‘ مگر میرا خیال ہے کہ ہر آتے جاتے وقت وہ یقینا اِس نالے اور سڑک کو تو ضرور دیکھتے ہوں گے جس کیلئے ایک ہی مثال دی جا سکتی ہے اور وہ ہے ’سلو سائیکلنگ‘ کی‘ جس میں وہ کھلاڑی جیتتا ہے جو سب سے پیچھے رہ جائے اور گلبہار کا یہ نالہ اپنی اسی صلاحیت بے پناہ کا اظہار کر رہا ہے۔ برادر شوکت یوسفزئی کی بات ہم اس لئے نہیں کرتے کہ وہ اپنے اِس حلقہ نیابت میں اب خال خال ہی دکھائی دیتے ہیں‘کیونکہ ان کو مختلف چینلز والوں نے اچک لیا ہے اور وہ بقول علامہ’گوشہ میں قفس کے مجھے آرام بہت ہے‘ کی مثال بنے اپنی تحریک اور چینلز کو اپنی تمام صلاحیتیں دیئے بیٹھے ہیں اور اہل گلبہار ان سے یہی استدعا کر رہے ہیں: گل پھینکے ہو اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی کچھ تو اے خانہ بر اندازِ چمن اِدھر بھی جہاں تک ہماری معلومات ہیں تو کوئی بھی منصوبہ بناتے ہوئے اس کے آغاز اور اختتام کی تاریخ کا تعین پہلے سے کر دیا جاتا ہے ایک کلو میٹر سے بھی کم سڑک اورنالے کی تعمیر انتہائی بھونڈے انداز میں کریہہ صورت کیساتھ نہ معلوم کس انجینئر کا شاہکار ہے جس کیلئے یہی درخواست کی جا سکتی ہے کہ اسے دوبارہ انجینئرنگ کالج میں داخل کروا کر اتنا تو سکھا دیا جائے جتنا ان کو آتا ہے جنہوں نے انجینئر نگ کالج کی شکل بھی نہیں دیکھی‘ہمارے ہاں یہ رویہ عام ہے کہ چوکیدار کو یہ کہہ دیا جائے کہ تلاشی کیلئے افرادی قوت زیادہ کر دو ورنہ جو بے توقیری اور بے عزتی کسی بھی تلاشی دینے والے شخص کو ہوتی ہے ہمارے ذہن اب اُس کوفت سے آزاد ہو چکے ہیں‘کبھی یہاں ایک گلبہار ریذیڈنٹس سوسائٹی ہوا کرتی تھی جس نے گلبہار کے اِن دو روڈز پر تھوک کے حساب سے سپیڈ بریکرز بنوائے تھے وہ بھی گذشتہ دس سال سے گمشدگی کا زخم سہہ رہی ہے اب گلبہار کے رہنے والوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔جن کو اس منصوبے کی سرپرستی کرنی چاہئے تھی ان کے لئے اپنا سیاسی مستقبل زیادہ اہم ہے جس کے لئے سوچنے کا انہیں نہ صرف حق ہے مگر یاد رکھیں کہ اِس حق کی ادائیگی گلبہار کے اِنہی باسیوں کی بدولت ہو گی جن کیلئے انہوں نے اس چوکیدار کی طرح یہی سوچ رکھا ہے کہ احتجاج ہوا تو افرادی قوت زیادہ کر دی جائے گی باقی روش وہی رہے گی‘ جی ہاں! میٹرو کے دوران اِس سے پہلے اور اِس کے بعد بھی گلبہار کے رہنے والے خاطر جمع رکھیں اور بقول حبیب جالب: دِن بدلے ہیں فقط وزیروں کے پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے