اقوام متحدہ: تاریخی غلطی اور اصلاح

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے منظوری دی ہے کہ پندرہ مئی دوہزارتیئس کو باضابطہ طور پر ”یوم نکبہ“ منائے گی۔ دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ادارے کا فیصلہ اگر گیم چینجر نہیں تو اہم ہے۔تقریبا 75 سالوں سے فلسطینی نکبہ جو 1947-48ء میں صیہونی ملیشیا کی طرف سے فلسطین کی نسلی صفائی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی تباہی کا منظرنامہ ہے نے فلسطینی سانحے کے ساتھ ساتھ آزادی کے لئے فلسطینیوں کی اجتماعی جدوجہد کے مرکز کے طور پر بھی کام کیا ہے۔ تین دہائیاں پہلے یعنی 1993ء میں اسرائیلی اور فلسطینی قیادت کے درمیان اوسلو معاہدے پر دستخط کے بعد نکبہ عملی طور پر پس منظر میں چلا گیا۔ فلسطینیوں پر زور دیا گیا کہ وہ اس تاریخ سے آگے بڑھیں اور ماضی کو بھول جائیں۔ جون 1967ء میں اسرائیل نے فلسطین مشرقی یروشلم‘ مغربی کنارے اور غزہ پر قبضہ کیا اور نسلی تعصب کی بنیاد پر فلسطینیون کا خون بہایا۔ ان دو تاریخوں کی بنیاد پر اوسلو کے مغربی رہنماؤں نے فلسطینیوں کو دو کیمپوں میں تقسیم کیا ایک ’انتہا پسند‘ جنہوں نے 1948ء کے نکبہ کی مرکزیت پر اصرار کیا اور دوسرا ’اعتدال پسند‘ جنہوں نے فلسطینی تاریخ اور سیاست کو 1967ء میں تبدیل کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ اس طرح کی تاریخی ترمیم پسندی نے فلسطینی جدوجہد کے ہر پہلو کو متاثر کیا اور فلسطینیوں کو نظریاتی و سیاسی طور پر تقسیم کردیا۔ فلسطینی پناہ گزینوں کے لئے واپسی کے حق کو ختم کیا گیا‘ جو اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر 194 میں شامل ہے۔ اسرائیل نے فلسطین کے کھنڈرات پر اپنی پرتشدد ریاست کی بنیاد رکھی جس کے پاس قانونی و اخلاقی جواز نہیں ہے۔ غزہ کی واپسی کا عظیم مارچ جو سال دوہزاراٹھارہ اُنیس میں ایک تحریک کی صورت سامنے آیا ممکنہ طور پر اہم اجتماعی اور پائیدار فلسطینی اقدام تھا جس نے فلسطینی سانحے کی ابتدائی تاریخ کے آس پاس نئی نسل کو دوبارہ متحرک کرنے کی کوشش کی۔ تین ہزار سے زائد افراد‘ جن میں سے زیادہ تر کا تعلق نکبہ کے بعد کی تیسری یا چوتھی نسلوں سے تھا‘ غزہ کی سرحد پر اسرائیلی سنائپرز کا نشانہ بنے۔ یہ فلسطینی اپنے حق کی واپسی کا مطالبہ کرنے پر شہید کئے گئے۔ ان سالوں کے خونی واقعات ہمیں یہ بتانے کے لئے کافی تھے کہ فلسطینی اپنی جدوجہد‘ اپنے مطالبات اور اپنے شہیدوں کو نہیں بھولے ہیں اور وہ اسرائیل کی طاقت سے بھی خوفزدہ نہیں ہیں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے پندرہ مئی دوہزارتیئس کو یوم نکبہ قرار دینے والی قرارداد منظور کر کے ایک تاریخی غلطی کو درست کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ میں اسرائیل کے سفیر گیلاد ایردان نے بجا طور پر اقوام متحدہ کے فیصلے کو فلسطین پر فوجی قابض کی حیثیت سے اسرائیل کو غیر قانونی قرار دینے کی جانب ایک بڑا قدم سمجھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ تصور کرنے کی کوشش کریں کہ بین الاقوامی برادری آپ کے ملک کے یوم آزادی کو آفت قرار دے کر اس کی یاد منا رہی ہے اور یہ ذلت کا مقام ہے۔ ایردان کے بیانات اور اسرائیلی حکام کے دیگر رد عمل سے 530 سے زائد فلسطینی قصبوں اور دیہاتوں کی نسلی صفائی اور ساڑھے سات لاکھ سے زیادہ فلسطینیوں کو ملک بدر کرنے کے سیاسی و اخلاقی احتساب کا آغاز محض اشارہ ہے‘ جن کی اُولادوں کی تعداد اب لاکھوں پناہ گزینوں کی صورت اپنا حق‘ اپنا وطن چاہتی ہے۔ اسرائیل نے نہ صرف نکبہ کو منسوخ کرنے اور مٹانے میں دہائیوں تک ہر قسم کی سرمایہ کاری کی بلکہ اس نے دوہزارگیارہ کے نکبہ نامی قانون منظور کرکے اپنے قبضے کو جائز کرنے کی کوشش بھی کی لیکن اسرائیل اپنے قبضے کو جائز بنانے کے لئے جس قدر بھی کوشش کرتا ہے اُسی قدر فلسطینی اپنے تاریخی حقوق کو دوبارہ حاصل کرنے کے لئے جدوجہد کو تیز کر دیتے ہیں اور اپنی قربانیوں سے ایک نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں۔ پندرہ مئی دوہزارتئیس‘ اقوام متحدہ کا ”یوم نکبہ“ اسرائیلی فلسطینی بیانیے کی فتح کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ غزہ کے لئے فلسطینیوں نے جو خون بہایا وہ خون رائیگاں نہیں گیا کیونکہ نکبہ کی واپسی کا حق اب فلسطینی جدوجہد کا مرکزی نکتہ ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: رمزی برود۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)