(روزنامہ آج میں شائع ہونے والے کالم جو اپنی اشاعت پر قارئین نے بے حد پسند کئے، ان سدا بہار کالموں سے انتخاب کا سلسلہ قارئین کی دلچسپی کے لئے شروع کیا گیا ہے‘ ان کالموں میں اعدادوشمار اور حالات کالم کی تحریر کے وقت کی عکاسی کرتے ہیں).................
برصغیر جنوبی ایشیا کی تحریک آزادی میں سیاسی پارٹیوں کے علاوہ اس وقت کی مذہبی جماعتوں اور علمائے حق نے بھی بڑے جوش و خروش سے حصہ لیا تھا اس ضمن میں علمائے دیوبند نے بہت اہم اور تاریخی کردار ادا کیا جو ہماری تاریخ کا ایک اہم باب ہے جسے فراموش نہیں کیا جا سکتا‘ حاجی صاحب ترنگزئی تحریک آزادی کے ایک نامور ونڈر رہبر وسالار تھے جنکی حق گوئی و بیباکی‘ صداقت و شجاعت‘ قول وفعل کی یکسانیت اور شخصیت و کردار کی پاکیزگی و بلندی کے مخالفین بھی معترف تھے اور کسی بھی حوالے سے متنازعہ نہیں رہے ہمیشہ اور ہر جگہ قابل احترام و عالی مقام رہے‘ پختونخوا کے عوام بھی آزادی کے معنی و مفہوم سے آگاہ ہوچکے تھے جذبہئ آزادی سے سرشار غلامی کے خلاف صف آراء تھے،‘ حاجی صاحب ترنگزئی (1273-1356ھ) ایک بہت بڑے مذہبی عالم اور روحانی پیشوا تھے جنکا اصل نام حاجی فضل واحد تھا لیکن حاجی صاحب ترنگزئی کے نام سے شہرت پائی اور تحریک آزادی میں اہم کردار ادا کرکے تاریخ کے صفحات میں یاد رہے جیسا کہ نام سے ظاہر ہے ترنگزئی(چارسدہ) میں پیدا ہوئے یہیں پر ابتدائی تعلیم حاصل کی دارالعلوم دیوبند سے فارغ ہوئے تو اپنے استاد شیخ الہند مولانا محمود الحسن(اسیرمالٹا) کے ہمراہ حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی اور وطن واپس آکر سماجی اور قومی سرگرمیوں میں حصہ لینے لگے خصوصاً سکولوں کے قیام اور تعلیم کو عام کرنے کے مشن میں باچا خان کا ساتھ دیا انگریز سامراج کو انکی تعلیمی سرگرمیاں پسند نہ آئیں اوران پر کڑی نظر رکھی کیونکہ یہی تو آزادی کے احساس و شعور کا پہلا قدم تھا اور یہی قدم صاحبزادہ عبدالقیوم خان کے قائم کردہ اسلامیہ کالج پشاور1913ء کے سنگ بنیاد تک پہنچا جہاں بعد میں ایک جامع مسجد تعمیر کی گئی‘ حاجی صاحب ترنگزئی نے کئی معرکوں میں حصہ لیا لیکن انگریز کیخلاف انکی جنگ ایک مسلسل جہاد کے طورپر تاریخ کا حصہ ہے بعد میں انہوں نے حکمت عملی کے طورپر محاذ جنگ تبدیل کردیا اور مہمند ایجنسی کو ہجرت کرگئے اور غازی آباد میں مستقل سکونت اختیار کرلی انکے نام‘ شخصیت اور کردار کی وجہ سے یہ نام پڑا اور شہرت حاصل کی‘ حاجی صاحب کے کردار کے حسن اور فکر کی صداقت نے انکی شخصیت میں ایک عجیب قسم کی کشش اور مقناطیسی قوت پیدا کر دی تھی لوگ انکی طرف کھینچے چلے جاتے تھے سب ان پرعاشق تھے ان سے فیض حاصل کرتے اور انکے مشوروں پر عمل کرتے تھے ہرفکر و نظر اور سیاسی نظریئے کے لیڈر کا ان سے رابطہ ہوتا تھا اور آزادی کی تحریک میں ان سے رہنمائی اور توانائی حاصل کی جاتی تھی ان حریت پسندوں میں انہوں نے کوئی امتیاز نہیں کیا کوئی فرق اور تفریق نہیں کی خواہ وہ مذہبی تھا کسی بھی مسلک اور عقیدے کا تھا سیاسی تھا یا غیر سیاسی قوم پرست یا وطن دوست تھاان کیلئے سب برابر تھے اور وہ سب کیلئے قابل احترام تھے سیاسی لیڈروں کے علاوہ علماء‘ ادیب‘ شاعر‘ صحافی اور دانشور بھی ان سے ملنے کو بے تاب ہوتے اور فیض یاب ہو کر جاتے معروف ترقی پسند شاعر‘ ادیب‘ صحافی‘ دانشور‘ سیاستدان اور مبارز کاکا جی صنوبر حسین مومند بھی اس قافلے میں شامل تھے اور حاجی صاحب کے بااعتماد ساتھی تھے‘ حاجی صاحب انکی باتوں پر توجہ دیتے غور سے سنتے اور انکے مشوروں کو قابل عمل سمجھتے تھے جسے کاکا جی بھی اپنے لئے بہت بڑا اعزاز سمجھتے تھے‘ مختصر یہ کہ غیر منقسم ہندوستان کے شہر دہلی اور کلکتہ سے لیکر پختونخوا کے تمام علاقوں بشمول قبائلی علاقہ جات اور ان سے آگے افغانستان اور روسی ترکستان تک تحریک آزادی اور اسکے شانہ بشانہ تحریک خلافت خصوصاً تحریک ریشمی رومال یہ سب سرگرمیاں‘ جدوجہد اور مبارزے کسی نہ کسی واسطے یا حوالے سے حاجی صاحب کی شخصیت‘ فکرونظر‘ رہنما یا نہ کردار اور عملی جدوجہد سے ربط اور وابستگی کے معتبر حوالوں سے تاریخ میں محفوظ ہیں‘ آخری بیس سالوں میں وفات تک غازی آباد عالمی شہرت کا حامل سامراج دشمن محاذ‘ سیاسی مدبروں‘ حریت پسند دانشوروں اور مبارز سالاران لشکر کے صلاح کار ادارتی مرکز کے علاوہ روحانی رابطے کا سرچشمہ سمجھا جاتا تھا جس نے عالمی سیاست کی توجہ اپنی طرف مبذول کی تھی اور اسی جگہ سے برصغیر کی آزادی کی تحریک کو روشنی‘ قوت‘ توانائی اور رہنمائی ملتی تھی‘ بلاشبہ حاجی صاحب ترنگزئی اپنے عصر کی نہایت معروف‘ مقبول اور محبوب شخصیت کے طورپر تاریخ میں یاد رکھے جائینگے بنیادی طورپر مذہبی عالم تھے ایک مجاہد اور روحانی پیشوا تھے اورحقیقی معنوں میں ایک حریت پسند مفکر و مبارز تھے۔روحانی فیض عام تھا اور عوام تک پھیل چکا تھا مدارس کے قیام اور علم کی روشنی کو عام کرنے سے سماجی برائیوں کے خاتمے‘ غلط رسوم و رواج سے معاشرے کو پاک کرکے پسماندگی اور جہالت کی تاریکیوں کو علم و شعور کی روشنی میں بدلنے کے انقلابی اقدامات سے انکی درویشانہ دوراندیشی‘ سیاسی و سماجی وژن‘ تفکر و دانشمندی اور کردار کی بلندی کابخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے بقول اقبال
نکتہ بلند‘ سخن دلنواز و جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کیلئے