مصلحت اور صلح جوئی سے کام لینا انسان کو بلندی پر لے جاتا ہے جبکہ اس سے احتراز کسی کیلئے بھی ہزیمت کا باعث بن سکتا ہے، اس حوالے سے شیخ سعدیؒ فرماتے ہیں کہ میں نے سنا کہ ایک بادشاہ نے کسی جرم میں ایک شخص کے قتل کا حکم جاری کیا وہ شخص شدت غم میں پاگل ہوگیا اور اس نے بادشاہ کو خوب گالیاں نکالیں وہ کہتے ہیں کہ جب بندہ جان سے جانے لگتا ہے تو جو اس کے دل میں ہوتا ہے وہ کہتا جاتا ہے بوقت ضرورت جب بندہ بھاگ نہ سکے تو جلدی میں ہاتھ سے تلوار کی نوک کو بھی پکڑ لیتا ہے اور عربی زبان کے ایک شعر کا مفہوم ہے۔جب انسان مایوس ہوجاتا ہے تو اس کی زبان لمبی ہوجاتی ہے اور جس طرح بلی گھبرا کر شیر پر حملہ کردیتی ہے۔بادشاہ اس شخص کی بولی سمجھ نہ سکتا تھا اس لئے وہ نہ جان سکا کہ یہ شخص اس کے متعلق کیا کہہ رہا ہے بادشاہ نے اپنے درباریوں سے پوچھا کہ یہ شخص مجھے کیا کہتا ہے؟ بادشاہ کے ایک نیک دل وزیر نے بادشاہ سے کہا کہ یہ کہتا ہے کہ وہ لوگ بہت اچھے ہوتے ہیں جو غصہ کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کو معاف کردیا کرتے ہیں۔بادشاہ نے جب یہ سنا تو اس کا دل نرم پڑگیا اور اس نے اس شخص پر ترس کھاتے ہوئے اسے معاف کردیا بادشاہ کے جس نیک دل وزیر نے اس شخص کے متعلق یہ کہا تھا اس کے مخالف وزیر نے جو کہ اس سے حسد کرتا تھا اور موقع کے انتظار میں تھا اس نے بادشاہ کو اس کے خلاف بھڑکاتے ہوئے کہا کہ ہمیں یہ زیب نہیں دیتا کہ ہم بادشاہ کے سامنے جھوٹ کہیں اور وہ شخص بادشاہ سلامت کو گالیاں دے رہا تھاجبکہ یہ وزیر موصوف کہتے ہیں کہ وہ بادشاہ سلامت کی تعریف کررہا تھا۔بادشاہ نے جب دوسرے وزیر کی بات سنی تو اس پر غصہ کا اظہار کرتے ہوئے بولا کہ اے بدبخت! مجھے اس کاجھوٹ تیرے سچ سے زیادہ پسند آیا اور اس نے جھوٹ بول کر کسی کی جان بچانے کی کوشش کی اور اس کا ارادہ نیک تھا جبکہ تیرے سچ میں خباثت چھپی ہوئی ہے اور تیرے اندر کا حسد مجھے نظر آرہا ہے اور تیری نیت میں فتور ہے۔حکایات شیخ سعدی سے اس انتخاب کا حاصل مطالعہ نیک نتی اور بھائی چارے کا جذبہ ہے جو کسی کو بھی اعلیٰ مقام عطا کرتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں حسد اور بعض انسان کو ذلت کی گھاٹی میں پھینکنے کا باعث ہیں۔