(روزنامہ آج میں شائع ہونے والے کالم جو اپنی اشاعت پر قارئین نے بے حد پسند کئے، ان سدا بہار کالموں سے انتخاب کا سلسلہ قارئین کی دلچسپی کے لئے شروع کیا گیا ہے‘ ان کالموں میں اعدادوشمار اور حالات کالم کی تحریر کے وقت کی عکاسی کرتے ہیں)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمیں اکثر و بیشتر اگر اپنے پاپوش کی کوئی فکر ہوتی ہے تو اس کے خریدنے وقت ورنہ عموماً ہمارے ہاں کسی بھی جوتے سے عموماً اعراض اس لئے برتا جاتا ہے کہ یہ ہمارے بدن کا سب سے نچلا پیراہن ہے جو ہمہ وقت زمین چومتا رہتا ہے اسی لئے اس کا اوڑھنا اور بچھونا دھول اور گرد ہی ہوتی ہے آپ نے بہت کم ایسے لوگوں کو دیکھا ہو گا جو تمام دن جوتا پہننے کے بعد جب اسے اتارتے ہیں تو وہ ویسا ہی چمک رہا ہوتا ہے جیسا اسکے پہنتے وقت۔ ہمارے ایک دوست کسی بھی دوسرے دوست کیساتھ ہاتھ ملانے کے بعد اسکے پاؤں کی طرف ضرور دیکھتے ہیں کیونکہ جب تک انہیں اپنے مہمان کے جوتے میں اپنا یا ان کا چہرہ نظر نہ آئے تو وہ مزید تسلسل دوستی پر آمادہ نہیں ہوتے۔ ہمارے ہاں شوگر کے مریضوں سے متعلق کہا جاتا ہے کہ انہیں اپنے پاؤں کا خیال اور صفائی اس سے کہیں زیادہ رکھنی چاہئے جیسا کہ وہ اپنے چہرے کی رکھتے ہیں۔ مگر یہ صورت ان لوگوں کیلئے بھی صحیح ہے جو شوگر کے مریض نہیں ہیں۔ ہمارے ہاں جوتوں کو نیچے سے رگڑنے کی روایت تو اس لئے موجود ہے کہ بہر حال انہیں زمین پر ہی گھسیٹے جانا ہے مگر ہمارے ہاں بہت ہی کم جوتوں کی خوش قسمتی ہوتی ہے کہ وہ اوپر سے بھی نہ گھسیٹے جائیں۔ اس کیلئے آپ کبھی مشاہدے کی قوت کو بروئے کار لاتے ہوئے مسجد کے دروازوں کا حال دیکھئے ہمارے ہاں اسے کسی بھی درجے میں اخلاقیات کادرجہ حاصل نہیں کہ ہم جوتے اتارتے ہوئے کسی ترتیب کے روادار ہوں۔ اُترے ہوئے جوتوں کے اوپر اپنے جوتوں سے انہیں مسلنا ہمارے ہاں کا معمول ہے پھر کسی بھی تقریب میں جہاں کمرے میں مہمانوں کی بہتات ہو وہاں بھی یہی صورت دکھائی دیتی ہے بلکہ شاید شدت سے دکھائی دیتی ہے پالش شدہ یہ جوتے اگر آپ پہلے مہمان ہیں تو بہت سلیقے سے نظر آئیں گے مگر رفتہ رفتہ جب ان کے ارد گرد جوتوں کی تعداد زیادہ ہوتی جاتی ہے تو اب ہر آنے والا ان جوتوں پر اپنے جوتے اتارتا ہوا کمرے میں داخل ہوجاتا ہے۔ نفاست پسند لوگوں کو اس سے جو اذیت ہوتی ہے وہ وہی جانتے ہیں۔ پالش شدہ جوتوں کی یہ بے حرمتی طبیعت پر بہت گراں گزرتی ہے اور شاید اکا دکا لوگ جو پاپوشی نفاست میں یقین رکھتے ہیں وہ اپنے جوتے آتے ساتھ ہی دروازے سے ہٹ کر ایک طرف کو رکھ دیتے ہیں اور دیر سے آنیوالے ایسے ہی احباب جوتے اتار کر دیگر جوتوں پر اپنے پاؤں رکھ کر اندر جانے کی سبیل نکال لیتے ہیں۔ کسی بھی مسجد میں ایسے پالش شدہ جوتوں کو لیکر جانااس بات کا امکان بہت کم کردیتاہے کہ اپنے جوتوں کو آپ اسی طرح صاف ستھرا نکال لائیں گے جیسا کہ آپ نے مسجد میں داخل ہوتے وقت انہیں اُتارا تھا آپ جوتوں کو جہاں بھی رکھیں ان کے ہمسائے میں پڑے جوتے بہرحال صاف جوتوں کیساتھ مس ہو کر اپنی گرد تقسیم کرتے رہتے ہیں۔ کسی بارش یا کیچڑ کی صورت میں جو بری صورت ہمارے جوتوں کی بنتی ہے اسے معمول پر لانے میں ایک عرصہ درکار ہوتا ہے۔ ہمارے مذکورہ دوست کے جوتے اگر کیچڑ میں لتھڑ جائیں تو وہ سب سے پہلے انہیں دھوتے پھر دھوپ میں خشک کرتے اس پر پالش کی ملمع کاری کرتے اور اگر پسند آئیں تو پہن لیتے ورنہ کسی کو دے دیتے ہیں‘ ہمارے اِس دوست کا ہمہ وقت یہی تقاضا رہتا ہے کہ انہیں بتایا جائے کہ ان کے جوتے، جرابیں اور لباس میں رنگ آمیزی کس حد تک عمدہ رہی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ان کے جوتے ان کے علاوہ بھی کہیں موجود ہوں تو کہا جا سکتا ہے کہ یہ جوتے ان ہی کے ہیں۔ اکثر و بیشتر وہ اپنے تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے یہ ضرور کہتے ہیں کہ میرے حلقہ احباب میں آپکو شاید گفتگو کے حوالے سے کوئی شخص غیر معیاری مل سکتا ہے مگر ایسا کوئی شخص میری قربت میں نہیں رہ سکتا جس کے جوتے ہمہ وقت چمکتے نہ رہتے ہوں۔ کسی بھی تہوار کے موقع پر آپ جوتوں کی دکان پر چلے جائیں آپ کو ہزاروں قسم کے افراد جوتے خریدتے ملیں گے مگر ان میں سے کم ہی ایسے ہوں گے جو دکاندار سے یہ استفسار بھی کر رہے ہوں کہ انہیں پالش کرنے کے بعد کتنے دیر تک یہ پالش قائم رہ سکے گی یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے آپ کوئی بھی موبائل لیتے ہوئے اس کی بیٹری کا وقت ضرور پوچھتے ہیں ہمیں ذاتی طور پر بھی ہمیشہ اس بات کی ٹھوہ رہتی ہے کہ کسی بھی مجلس میں جاتے ہوئے ہم جوتے کہاں سنبھالیں گے؟ بالخصوص جبکہ یہ نشست فرشی ہو۔ ایسی کسی بھی مجلس میں جاتے ہوئے تو شاید آپ اپنے جوتوں کو ایک طرف رکھ کر اطمینان سے بیٹھ جائیں گے مگر نکلتے ہوئے انکا حشر ناقابل دید ہوتا ہے پھر ہمارے ہاں کوئی بھی شخص جوتوں کو مسلنے سے اِس لیے بھی باز نہیں آتا کہ ہمارے ہاں معاشرتی اقدار میں دوسروں کے جوتوں کی قدر شامل ہی نہیں ہوئی۔ کسی دن آپ بھی یہ تجربہ کر کے دیکھئے کہ آپ پورا دن اپنے جوتوں کی پالش بچا کر رکھئے اور رات کو گھر میں انہیں اتارتے وقت جائزہ لیجئے تو ان کے صاف رہ جانے پر آپ کو جو طمانیت قلبی ملتی ہے وہ صرف ان ہی لوگوں کا خاصہ ہے جو جوتوں میں بھی اطمینان تلاش کرتے رہتے ہیں۔ اِس میں کیا شک ہے کہ ہمارے گلی کوچے‘ ہماری سڑکیں اور بازار تمام تر مٹی سے اٹے ہوئے ہیں اور ہم اپنی دکان یا گھر کا کوڑا سڑک پر ڈال کر مطمئن ہو جاتے ہیں۔ نتیجتاً ہماری سڑکیں اس گند سے ہر وقت بھری رہتی ہیں کسی بھی بازار کے خریدار اگر اپنے جوتوں سے متعلق یہ روش اپنا لیں کہ انہیں اپنی نفاست میں پاپوشی نفاست کو بھی داخل کرنا ہے تو یقینا وہ بازار کے اس کوڑے سے نہ صرف جان بچا کر گزریں گے بلکہ بالواسطہ یہ ایک ایسا طریقہ ہو گا جس سے ہم اپنے گھروں کے علاوہ گلی کوچوں کو بھی صاف رکھ سکیں گے۔ ستم بالائے ستم ہمارے سکول جانے والے بچے ایسے کسی بھی شعور سے آگاہ نہیں کہ انہیں اپنے کپڑوں کیساتھ ساتھ جوتوں کی صفائی کا بھی خیال رکھنا ہے ہمارا میڈیا داغوں کو تو اچھا کہتا رہتا ہے مگر یہ سب کچھ صرف اقتصادی دوڑ میں اپنا مقام بنانا ہے۔ ورنہ داغ کپڑوں کے ہوں یا جوتوں کے ناقابل قبول ہی ٹھہرتے ہیں۔