(روزنامہ آج میں شائع ہونے والے کالم جو اپنی اشاعت پر قارئین نے بے حد پسند کئے، ان سدا بہار کالموں سے انتخاب کا سلسلہ قارئین کی دلچسپی کے لئے شروع کیا گیا ہے‘ ان کالموں میں اعدادوشمار اور حالات کالم کی تحریر کے وقت کی عکاسی کرتے ہیں).................
غور طلب ہے کہ احساس، شعور اور سچائی(عصری تقاضے)ہیں تو بہت ہی خوبصورت لفظ، جو ادبی اعتبار، معیار اور وقار کی صداقت کے ترجمان وعکاس ہیں اور انسانی نفسیات وسماجی تعلقات کے حوالے سے ادب وزندگی کے ارتقائی سفر کو دوام بخشنے کیلئے قوت نمو کے بنیادی اجزاء بلکہ سرچشمے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ہمارے معاشرے یا ہمارے ملک میں ادب کی تخلیق میں (تخلیقی عمل)اس تصور تخلیقیت کا اعتبار اور دنیائے ادب میں اس نظریہ فن کا اختیار کس نسبت وتناسب سے ہے؟ الجبرے کے اس جبر میں پھنسنے سے بچنے کیلئے میں مختصراً اتنا عرض کرنا ضروری سمجھتاہوں کہ تخلیقی عمل اور حسیت اور حساسیت کے بنیادی عنصر کے بغیر ممکن ہی نہیں، اسی طرح شعور اور شعوری عمل کے بغیر بھی تخلیق میں حسن وصداقت کا سایہ بھی جگہ نہیں پاسکتا اور ایک حقیقت یہ بھی کہ حس وشعور کی کمی یا نیستی اپنے عصر کو جاننے اور سمجھنے میں ناکامی ونامرادی کا راستہ دکھاتی ہے،کون نہیں جانتا کہ حس وشعور ہی انسان کو انسان بنانے کی فکر ونظر عطا کرتے ہیں اور معاشرتی زندگی میں آگے بڑھنے اور بہتری لانے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں، خصوصاً تخلیقی ذہن کو تو روشنی، توانائی اور حرارت یہیں سے ملتی ہے جو ادب وفن کی تخلیقی صلاحیت کو بڑھانے اور زندگی کے مسائل کو سمجھنے اور سلجھانے اور عوام کی فکری رہنمائی کافریضہ انجام دیتے ہیں۔تخلیقی حس اور تخلیقی شعور نے اپنے اظہار کے پہلے ہی لمحے میں تخلیق کار کو اس حقیقت سے آشنا کیا تھا کہ عصر اور عصری تقاضے کیا ہوتے ہیں، اسے عصری حقائق کی آگہی اور ادراک کی قوت دی اور پھر اسے عصری تقاضوں سے باخبر رہنے کی صفت وخصلت سے نوازا اور یہی وجہ ہے کہ ہر دور کے فن اور ادب میں کسی نہ کسی حوالے سے اس دور کے عصری شعور اور عصری تقاضوں کی جھلک اپنی اپنی فکری صلاحیت اور فنی قوت کے ساتھ چلی آرہی ہے،یعنی تخلیقی عمل اور تخلیقی فنون اپنے عصری رجحانات کی بدولت نہ صرف تاریخ کے ہر دور میں زندگی کا ثبوت دیتے ہوئے بعد کے ادوار میں بھی سفر کرتے نظر آتے ہیں بلکہ اس عہد کی تاریخ کو مرتب بھی کرتے ہیں اور محفوظ بھی رکھتے ہیں۔میں اپنے اہل قلم دوستوں کوا دب کے معنی ومفاہیم سمجھانے کی جسارت تو نہیں کرسکتا البتہ ایک سوال یا گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ کیا ہم اپنے اس عصر کے تقاضوں کو واقعی سمجھتے ہیں؟ کیا ہم اپنے اردگرد کے حالات کو سمجھنے اور ان پر اظہار خیال کرنے کی اجتماعی ذمہ داری پوری کررہے ہیں اور کیا ہم نے اس حوالے سے سچائی کو بیان کرنے کی ایک معمولی سی کوشش بھی کی ہے؟ کیا ہمارے اہل قلم حقیقت میں بے خوف ہوکر اپنے مافی الضمیر کا اظہار کرتے ہیں؟ کہاجاتا ہے کہ شاعر، ادیب اور دانشور جھوٹ سے نفرت کرتے ہیں، سچائی کے علمبردار ہوتے ہیں اور انسان دوستی اور امن ومحبت کے پیغام رساں ہوتے ہیں اور اگر ایسا ہے تو آیئے سچ بولیں اور پورا سچ بولیں اور سچائی کی خاطر اپنی منصبی فرائض کی ادائیگی کیلئے ایک ہوجائیں، آج کے ادبی منظرنامے، ادبی سماجیات اور سماجی ادبیات کا یہی تقاضا ہے۔