حساب (سید ابو یاسر)

ریڈیو پاکستان پر نشر ہونیوالی شاہ بلیغ الدین کی ایک تقریر سے اقتباس نذر قارئین ہے مفتی صدر الدین آزردہ کو کچھ خاص کتابوں کی ضرورت تھی، مفتی صاحب بہادر شاہ ظفر کے پاس بھی آتے جاتے رہتے تھے مگر تھے وہ کمپنی بہادر کے ملازم، انہوں نے بہت سوں سے پوچھا کہ یہ کتابیں انہیں کہاں مل جائیں گی مگر کہیں سے کچھ پتہ نہ چلا، ہوتے ہوتے معلوم ہوا کہ شاہ عبدالغنی صاحب کے پاس یہ کتابیں ہیں شاہ صاحب حضرت شاہ ولی اللہ کے صاحبزادے تھے، مفتی صاحب نے ان سے گزارش کی کہ کچھ دنوں کیلئے یہ کتابیں مجھے مل جاتیں تو میں بڑا شکرگزار ہوتا، انہوں نے فوراً کتابیں بھیج دیں، کتابیں آئیں تو مفتی صاحب نے دیکھا کہ بڑی نادر ہیں لیکن ہیں بڑی ردی حالت میں، جلدیں ٹوٹی ہوئی ہیں، اوراق علیحدہ علیحدہ ہو رہے ہیں، مفتی صاحب نے پہلا کام یہ کیا کہ خاص طورپر انکی جلدیں بنوائیں، جب جلدیں بن کر آگئیں تو بہت خوش ہوئے، اس وجہ سے بھی کہ نادر کتابیں محفوظ ہوگئیں اور اس وجہ سے بھی کہ شاہ صاحب کی تھوڑی سی خدمت ہوگئی، وہ جانتے تھے کہ شاہ صاحب کا ہاتھ تنگ رہتا ہے اور وہ کتابوں کی جلدبندی پر کچھ خرچ نہیں کرسکتے، ہاتھ تنگ اس وجہ سے رہتا تھا کہ جو کچھ آمدنی ہوتی تھی اس میں سے بڑا حصہ دوسروں کی مدد پر اٹھ جاتا تھا، کسی کو ایک وقت کی روٹی کھلانا انہیں کتابوں کی جلد بندی سے کہیں زیادہ پسند تھا، کتابیں پڑھنے کے بعد صدر الدین آزردہ نے واپس بھیج دیں اور دل ہی دل میں سوچتے رہے کہ شاہ صاحب نئی جلدیں دیکھ کر خوش ہوں گے، ادھر شاہ صاحب کو کتابیں ملیں تو انہوں نے دیکھا کہ بڑی خوبصورت جلدیں بنی ہیں، یہ دیکھ کر خوش نہ ہوئے، مولانا اشرف علی تھانوی نے لکھا ہے جلدیں توڑ کر مفتی صاحب کو لوٹادیں اور کہلا بھیجا کہ ہمارے وہی پرانے پٹھے بھیج دو!، شاہ عبدالغنی صاحب کے سینکڑوں ہزاروں مرید تھے، امیر بھی غریب بھی مگر خود شاہ صاحب کا یہ حال تھا کہ ان کے ہاں اکثر فاقہ رہتا تھا۔ایک مرتبہ گھر کی ایک خادمہ چھوٹے بچے کو بہلانے نکلی، اتنے میں مفتی صدرالدین آزردہ ادھر سے گزرے، بچے کامرجھایاہوا چہرہ دیکھا تو پوچھا کہ کیا بات ہے، کیا بچے کی طبیعت خراب ہے؟خادمہ نے کہا، نہیں بھوک کی وجہ سے پریشان ہو رہاہے۔انہوں نے کہا، پھر کچھ کھلا کیوں نہیں د یتی ہو؟خادمہ نے کہا حضرت گھر والوں کا کئی وقت سے فاقہ ہے، مفتی صاحب کو کچھ مزید سننے کی ضرورت نہ تھی وہ شاہ صاحب کے حالات خوب جانتے تھے اسی وقت گھر پہنچ کر ڈیڑھ سویا تین سو روپے شاہ صاحب کی خدمت میں بھجوائے مگر یہ روپے فوراً واپس کردیئے گئے، مفتی صاحب خود حاضرہوئے، وہ دلی کے صدر الصدور تھے، مغلیہ سلطنت میں سیشن جج کے برابر ایک عہدہ ہوتا تھا جو بعد میں انگریزوں نے موقوف کردیا مگر جہاں جہاں مسلمان حکمراں رہے انگریزوں کے دور میں بھی یہ عہدہ قائم رہا چنانچہ تقسیم سے پہلے تک حیدر آباد دکن میں صدر الصدور کا عہدہ قائم تھا، مولانا حبیب الرحمان خان شیروانی ایک عرصہ تک اس عہدے پر فائز رہے، صدر یار جنگ ان کا خطاب تھا۔مفتی صاحب نے شاہ صاحب سے عرض کیا، حضور سمجھتے ہیں کہ یہ صدرالصدور ہے، رشوت لیتا ہوگا لیکن میں آپ کو یقین دلاتاہوں کہ ایسا نہیں ہے، یہ روپے میری تنخواہ کے ہیں، قبول فرمالیجئے، جواب ملا، مجھے کبھی یہ خیال نہیں ہوا کہ تم رشوت لیتے ہو! عرض کیا، پھر کس وجہ سے انکار ہے؟ ارشاد فرمایا، میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی نوکری کو بھی اچھا نہیں سمجھتا اور تم ایسٹ انڈیا کمپنی کے نوکرہو! اس لئے میں ان کے لینے سے معذور ہوں، اب معلوم ہوا کہ کتابوں کی جلدیں بھی اسی لئے تڑواکرواپس کردی تھیں، شاہ صاحب نے روپیہ لوٹا دیا تو مفتی صاحب نے برا نہیں مانا خود حاضر خدمت ہوئے“ اس منتخب اقتباس کا حاصل مطالعہ ان نامی گرامی شخصیات کا احتیاط کرنا اورروزمرہ امور میں بھی احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دینا ہے، یہ صفت آج کل ناپید ہے۔