موٹاپا ایک بیماری ہے۔سب سے زیادہ فربہ لوگ امریکہ میں پائے جاتے ہیں۔ موٹاپے کا خیال ہمیں اچانک نہیں آیا۔صبح صبح ایک خبر نے ہمیں متوجہ کیا۔خبر یہ تھی کہ مصر کے سرکاری ٹی وی کی آٹھ خواتین اینکرز کو موٹاپے کے باعث معطل کر دیا گیا‘ پاکستان میں بھی شادی کے بعد اکثر خواتین کا وزن بڑھ جاتا ہے۔ان دنوں چوبیس گھنٹے کی ٹیلی ویژن نشریات نے بھی گھریلو خواتین کو زیادہ مصروف کر دیا ہے ایک زمانے میں گھر کا کام زیادہ تر خواتین اپنے ہاتھ سے کرتی تھیں اب مڈل کلاس گھرانوں میں بھی دو دو کام کرنے والی ملازمائیں دکھائی دیتی ہیں۔بعض گھروں میں برتن‘ صفائی‘کپڑے دھونے‘ استری کرنے اور کوکنگ کیلئے الگ الگ کام کرنے والیاں رکھی جاتی ہیں۔گھر کی خواتین صرف کوکنگ کرتی ہیں یا پھر صبح کی نشریات سے لے کر رات گئے تک مختلف چینلز کے ڈرامے دیکھنے میں مصروف رہتی ہیں موبائل کی مصروفیت اس کے علاوہ ہے اب اگر
آپ سارا دن کوکنگ کے چند گھنٹے کے علاوہ،موبائل پر مصروف رہیں اور خوراک میں بھی کمی نہ آنے دیں تو وزن کے منہ زور گھوڑے کو لگام کیسے دی جاسکتی ہے؟مردوں کا بھی یہی حال ہے۔ہاتھ سے اب کام کم ہی ہوتا ہے۔دفتری امور کیلئے بھی کمپیوٹر ہے۔جہاں کمپیوٹر ہو،وہاں سوشل میڈیا سے بچنا محال ہے۔فیس بک‘ وٹس ایپ اور ٹویٹر سے دامن بچانا آسان نہیں ہے ہر پانچ دس منٹ بعد آپ سٹیٹس چیک کرتے ہیں۔گویا چوبیس گھنٹوں میں زیادہ وقت آپکی آنکھیں موبائل سکرین سے چپکی رہتی ہیں۔گھروں میں ایک ہی کمرے میں بیٹھے افراد، اپنے اپنے موبائل پر مصروف دکھائی دیتے ہیں۔سو ہمارے اعصاب ریڈیائی لہروں سے شل رہتے ہیں۔اس سے کئی بیماریاں بھی جنم لیتی ہیں۔اکثر خبریں چھپتی ہیں کہ موبائل کے زیادہ استعمال سے بھی وزن میں اضافہ ہوتا ہے مگر اِس بری ”لت“ سے نجات نا ممکن ہوتی جارہی ہے۔اوپر سے ہماری خوراک خالص نہیں ہے۔دودھ تو دُور کی بات، پانی تک خالص میسر نہیں۔غذاؤں میں ملاوٹ کے سبب بیماریا ں پھیل رہی ہیں۔کھانے پینے اور سونے کے اوقات بھی پہلے جیسے نہیں رہے۔جائیں تو جائیں کہاں۔ہر شخص زندگی کی سہولیات کے لیے ہانپ رہا ہے۔ایک زمانہ تھا گھر کی عورتیں صبح دم جاگ کر نماز سے فراغت کے بعد ہاتھ سے چکی پیستی تھیں اور تازہ آٹا نکال کر روٹی پکائی جاتی تھی۔گھروں میں گوشت بہت کم پکتا تھااگر کبھی
ہفتے میں ایک دو بار گوشت آتا بھی تو اس میں بھی سبزیاں ڈالی جاتی تھیں۔دودھ میں پانی ملانے کو گناہ خیال کیا جاتا تھا۔ہمیں اپنا بچپن یاد ہے کہ جب ہم گاؤں میں رہتے تھے تو صبح والدہ کے چکی پیسنے کی آواز سے، ہماری آنکھ کھلتی تھی۔گاؤں میں کنویں سے پانی لانے کی ذمہ داری بھی خواتین کی ہوتی تھی۔دوپہر کا سالن بہت کم پکتا۔عموماََرات کے بچے ہوئے سالن،اچار،چٹنی اورلسی سے لنچ کیا جاتا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ محلے بھر کی عورتیں ایک ہی تندور پر روٹیاں پکاتیں اور پھر بچوں کے ساتھ سبھی اکٹھی بیٹھ کر کھاتی نظر آتیں۔خاص طور پر گرمیاں، درختوں کی چھاؤں میں بسر ہوتی تھیں۔آج چند لمحے بجلی چلی جائے تو سانس لینا بھی دشوار ہو جاتاہے،پانی غائب ہوجاتا ہے،پھر موبائل چارجنگ سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اورنئی نسل شاید روٹی کے بغیر تو رہ سکے مگر موبائل کے بنااس کا وقت گزارنا مشکل ہے۔ جانے کس جرم کی پائی ہے سزایاد نہیں۔