(روزنامہ آج میں شائع ہونے والے کالم جو اپنی اشاعت پر قارئین نے بے حد پسند کئے، ان سدا بہار کالموں سے انتخاب کا سلسلہ قارئین کی دلچسپی کے لئے شروع کیا گیا ہے‘ ان کالموں میں اعدادوشمار اور حالات کالم کی تحریر کے وقت کی عکاسی کرتے ہیں).................
ایک مسافر گھڑ سوار نے جاتے ہوئے ایک شخص سے پوچھا ”بھئی! آبادی یہاں سے کتنی دور ہے؟“ اُس شخص نے جواب دیا ”آپ اپنے دائیں طرف دیکھیں،وہ سامنے آبادی نظر آرہی ہے۔“ گھڑ سوار نے ادھر دیکھا تو اسے ایک وسیع و عریض قبرستان دکھائی دیااس نے سوچا یہ شخص یا تو دیوانہ ہے یا کوئی مردِ درویش۔اس نے دوبارہ سوال کیا ”بھائی میں نے آبادی کا پوچھا ہے اور تم مجھے قبرستان کا راستہ بتا رہے ہو؟یہ بھلا کیا بات ہوئی؟وہ شخص بولا ”یہ اسلئے کہ میں نے دیگر تمام مقامات سے لوگوں کو یہاں آتے دیکھا ہے مگر یہاں سے واپس جاتے کسی کو نہیں دیکھا اور آبادی کہتے ہی اس جگہ کو ہیں جہاں دُور دُور سے لوگ آئیں او وہاں سے پھر ویرانے کی طرف نہ جائیں میرا خیال ہے کہ حقیقی معنوں میں آبادی یہی ہے۔‘ اس تمثیل سے یہ بات واضح ہوتی ہے ایک روز اپنے شاندار مکانات‘محلے اور شہروں کو چھوڑ کر ہمیں گورستان کا سفر کرنا پڑتا ہے۔اصل آبادی یہی تو ہے جہاں آہستہ آہستہ سب لوگ جمع ہورہے ہیں سیانے کہتے ہیں کہ ہفتے میں ایک دو بار قبرستان کا وزٹ ضرور کیاجائے تاکہ انسان کواپناآخری ٹھکانہ ہمیشہ یاد رہے وہ عبرت حاصل کرے کہ دنیا میں بڑے بڑے ناگزیر لوگ بھی یہیں پیوند خاک ہوئے اور ایسے لوگوں سے قبرستان بھرے پڑے ہیں۔ موت ایک ایسی لگام ہے جو منہ زور نفس کو قابو میں رکھتی ہے بہ شرطیکہ اِس کا احساس ہمارے من میں روشن ہو جائے اگر موت کو ہر وقت نگاہوں میں رکھا جائے تو کوئی بھی شخص صراطِ مستقیم سے کبھی نہ بھٹکے۔ لیکن ہم تو ”انھے وا“ زندگی گزارتے چلے جاتے ہیں اور اپنے شب و روز پر نگاہ نہیں رکھتے سو اسی زندگی کو سب کچھ سمجھ بیٹھے ہیں ہم تو صبح سے شام تک اپنی اڑھائی انچ کی زبان سے اکثر پانچ چھ فٹے انسان کو زخم زخم کرتے ہیں۔ہمیں اپنی آواز سنائی نہیں دیتی کہ ہم کیا کہہ رہے ہیں اور کسی کے دل پر ہمارے الفاظ کیسے گھاؤ لگاتے جارہے ہیں کیا کبھی ہم نے سوچا کہ دن بھر اپنی زبان سے ہم کتنے لوگوں کی دل آزاری کرتے ہیں؟ نجات اور بخشش اپنی زبان کو قابو رکھنے میں ہے،زبان کا گھاؤکبھی نہیں بھرتا۔ ایک مرتبہ حضرت حکیم لقمان کے مالک نے انہیں ایک بکری دیکر حکم دیا کہ اِسے ذبح کر کے اس کے گوشت کا وہ حصہ لاؤ جو سب سے بہتر ہے۔ چنانچہ آپ نے بکری کو ذبح کیا اور اس کا دل اور زبان نکال کر مالک کے سامنے پیش کر دی۔ دوسرے روز مالک نے انہیں ایک اور بکری دی اور کہا اس کو ذبح کر کے، اِس کے گوشت کا وہ حصہ لاؤ جو سب سے خراب ہے۔آپ نے بکری کو ذبح کیااور اس کا دل اور زبان نکال کر مالک کے سامنے رکھ دیئے۔مالک حیران ہو کر پوچھنے لگا کیا بکری کے یہ اجزا بیک وقت اچھے اور برے ہو سکتے ہیں یہ کیسے ممکن ہے؟لقمان نے جواب دیا ”زبان و دل دونوں ہی بہترین چیزیں ہیں بشرطیکہ اس کی ذات میں بھلائی اور شرافت ہو اور یہی دونوں چیزیں بد تر ہیں اگر اس کی ذات میں بھلائی اور شرافت نہ ہو۔“یعنی یہ دونوں چیزیں انسان کو اعلیٰ مقام پر بھی پہنچاتی ہیں اور پستی اور ذلت تک بھی لے جاسکتی ہیں۔ عزیز قارئین! ہمارا معاشرہ جس دور سے گزر رہا ہے، ہمیں اپنی زبان و دل کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔اگر دلوں میں خواہشوں کے انبار ہیں تو یہی خواہشیں ہمیں حرص‘ہوس‘تکبر اور زوال کی طرف لے جاسکتی ہیں جبکہ زبان سے ہمارے اخلاق اور شخصیت و کردار پر گہرے اثرات مرتب ہو تے ہیں۔آج ہمیں سب سے زیادہ ضرورت علم و شعور کیساتھ ساتھ محبت کی ہے۔