طرز عمل   (سید ابو یاسر)

شاہ بلیغ الدین کے ریڈیو پاکستان پر نشر بیان سے اقتباس نذر قارئین ہے،”لوگ ادب سے‘ خاموشی سے اور احترام سے بیٹھے تھے۔ یہ تھا ہی مقام عقیدت۔ جناب حضرت نظام الدین اولیاءؒ کا بڑا نام تھا۔خدا نے علم و عمل بھی دیا تھا۔ شہرت و عزت بھی دی تھی۔ اس زمانے کا ہر بڑا چھوٹا ان سے ادب اور عقیدت سے ملتا تھا لوگ دور دور سے انہیں دیکھنے آتے اور فیض حاصل کرکے جاتے۔ بہت سے ضرورت مند  ان کے لنگر میں پڑے رہتے۔ دن رات یہ کاروبار چلتا رہتا۔ایک مرتبہ حضرت نظام الدین مریدوں اور عقیدت مندوں کے سامنے بیٹھے تھے کہ ایک شخص محفل میں آیا‘ آیا تو ان کے پاس پہنچا۔ بولا۔ مجھے یہ چیزیں چاہئیں فوراً منگا دیجئے۔ حضرت نظام الدینؒ اس کی فرمائش سن کر چپ رہے تو وہ شخص بپھر گیا اور بپھرا بھی ایسا کہ گالیاں بکنے لگا۔
حضرت نظام الدینؒ جو سلطانجی کہلاتے تھے خاموشی سے سب کچھ سنتے رہے زبان سے کچھ نہ کہا اور کہتے بھی کیا؟ گالی کا جواب گالی سے دینا بہت آسان ہے لیکن دوسرے کی بدتمیزی‘ بداخلاقی اور بدتہذیبی کو خاموشی سے برداشت کرنا بڑے دل گردے کی بات ہے۔ آدمی ہے تو مٹی کا پتلا‘ مگر آگ بھی اس کی خمیر میں ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھڑک اٹھتا ہے۔ دوسروں کے سامنے بے عزتی ہو تو آدمی کو اور بھی زیادہ احساس ہوتا ہے مگر بعض اللہ کے بندے اپنے نفس کی ایسی تربیت کرتے ہیں کہ صبر و ضبط کی قوت بڑھ جاتی ہے اور غصے کا مادہ کم سے کم ہوکر قریب قریب ختم ہوجاتا ہے۔ سلطانجی بھی ایسے ہی نیک لوگوں میں تھے۔  رسول کریمؐ کا اسوۂ حسنہ ہمیشہ ان کی نظروں کے سامنے رہتا۔ کیسے کیسے اکھڑ‘ گنوار‘ بدوی مدینہ پہنچتے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دروازے پر کھڑے ہوکر مطالبہ کرتے۔ ہمیں اناج دیجئے‘ بھیڑ بکری دیجئے۔ درہم و دینار دیجئے۔ کبھی کبھی تو یہ دشمنان عقل بدتمیزی پر اتر آتے لیکن رسول کریمؐ کسی نہ کسی طرح ان کے مطالبات پورے کردیتے۔ ذرا ناراض نہ ہوتے۔ کبھی انکار نہ کرتے۔ فوائد الفواد میں ہے جب وہ مطلبی جس نے سلطانجی کے عقیدت مندوں میں پہنچ کر گالی گفتار کی تھی خاموش ہوا تو انہوں نے اپنے خادم کو اشارہ کیا۔ وہ آیا تو اس سے فرمایا۔ جو کچھ یہ چاہتا ہے اسے دیکر احترام کے سامنے رخصت کردو۔ وہ محفل سے اٹھ گیا تو حاضرین اسکی گستاخی اور بدتمیزی پر تبصرہ کرنے لگے۔ سلطانجی نے ان کی باتیں سنیں تو فرمایا۔ تم نے میرا عمل دیکھا۔ اسے یاد رکھو! میں نے اپنے استاد اور مرشد کا عمل دیکھا تھا جو آج میرے کام آیا۔ پھر فرمایا۔ ایک مرتبہ بابا صاحب کی محفل میں ایک شخص آیا۔ بابا صاحب سے مراد شیخ فرید الدین گنج شکرؒ ہیں جن کا مزار پاک پتن میں ہے۔ بابا فرید بھی ان بزرگوں میں تھے جن کا دور دورتک شہرہ تھا۔ وقت کے بڑے بڑے لوگ ان سے جھک کے ملتے اور عقیدت سے ہاتھ باندھ کر آگے بیٹھتے۔ ایک ایک لفظ جو زبان سے نکلتا اسے موتی سمجھ کر حافظے کی ڈوری میں پرو لیتے لیکن وہ جو شخص آیا کچھ عجیب ہی آدمی تھا۔ آتے ہی لڑ پڑا اسے اعتراض اس بات پر تھا کہ لوگ کیوں بابا فرید کو اتنی عزت دیتے ہیں۔ بولا تم تو بت بنے بیٹھے ہو۔ جبھی تو تمہاری پوجا ہوتی ہے۔ حاضرین مجلس کو اس شخص کا ایسا کہنا برا معلوم ہوا۔ لیکن بابا فریدؒ نے اس سے کچھ نہ کہا جب بار بار وہ کہتا رہا کہ تم بت ہو! تم بت ہو تو حضرتؒ نے بڑی نرمی سے کہا۔ میاں!  خدانے ایسا ہی بنایا‘ ورنہ ہماری کیا مجال کہ ہم کچھ بن سکیں۔ سلطانجی نے کہا جس نرمی سے یہ جملہ بابا فرید نے کہا اور جس طرح وہ خاموش رہے اس سے مجھے اندازہ ہوا کہ غصے پر انہیں حد درجہ قابو تھا۔ یہی تربیت میں نے بھی اپنے نفس کو دینے کی کوشش کی ہے۔ہم بھی اپنے غصے کو قابو میں رکھ سکتے ہیں بشرطیکہ ہمارے دلوں میں بھی اللہ کا ڈر رہے نفس پر قابو پانا مشکل ہے مگر کچھ ایسا مشکل بھی نہیں۔ اگر ہم دل میں ٹھان لیں کہ کسی برائی کو چھوڑ دیں گے تو خدا بھی ہماری مدد کرتا ہے۔ جسے رب کریم کی مدد مل جائے اسے اور کیا چاہئے۔“ اس اقتباس کا حاصل مطالعہ بڑے لوگوں کی زندگی کے واقعات کا مطالعہ کرنا اور اس سے سیکھنا ہے۔