ایک سپاہی کی یادیں

(روزنامہ آج میں شائع ہونے والے کالم جو اپنی اشاعت پر قارئین نے بے حد پسند کئے، ان سدا بہار کالموں سے انتخاب کا سلسلہ قارئین کی دلچسپی کے لئے شروع کیا گیا ہے‘ ان کالموں میں اعدادوشمار اور حالات کالم کی تحریر کے وقت کی عکاسی کرتے ہیں)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ُاس رات ہمارے گھر کے چولہے میں آگ نہیں جلی تھی۔اس رات ہماری لالٹین کی روشنی ماند پڑ گئی تھی۔ گاؤں کے مولوی صاحب مجھے اپنے گھر لے گئے تھے۔اس رات میں وہیں سویا تھا کہ ہمارے گھر میں ایک ہجوم امڈا ہوا تھا۔ شام 4بجے ہی سے ہمارے گاؤں کے ڈیرے پرسبھی انتظار میں تھے۔میری ماں کو کسی نے بتایا تھا کہ محاذِ جنگ سے کوئی خبر آنے والی ہے اور پھر ایک فوجی ٹرک ہمارے دروازے کے آگے آرُکا تھا۔جس میں سے فوجی اترے تھے جنہوں نے ایک تابوت اتار کر ہمارے صحن میں رکھ دیا تھا۔ مجھے اپنے گاؤں کی شامیں بہت اچھی لگتی تھیں ان کی یاد آج بھی میرے لہو میں رواں دواں ہے۔شام کے سائے پھیلتے ہی جب تنوروں کا دھواں ہر گھر سے اوپر اٹھتا دکھائی دیتا تو دُور سے دُھول اُڑاتے مویشی گلے کی گھنٹیاں بجاتے گاؤں میں داخل ہو اکرتے تھے۔شام کے ملگجی سایوں میں دھول اڑاتے چرواہے جب گھروں کو لوٹتے تو شام کے چہرے پر ایک سرخی سی چھاجاتی مگر وہ شام تو بے حداداس تھی یوں لگ رہا تھا جیسے شام نے اپنے بال کھول لئے ہیں اور وہ بین کر رہی ہے۔آٹھ ستمبر کی وہ شام میں اپنی نگاہوں سے کھرچ ہی نہیں سکتا۔گاؤں کی عورتیں، میری ماں کے غش کھانے کے بعد اس کے منہ میں چمچ سے پانی ڈالتی تھیں مگر اس کا دندل نہیں کھلتا تھا،بمشکل ناک پر ہاتھ رکھنے سے وہ ہوش میں آتی تو دوبارہ بے ہوش ہو جاتی۔اس ہجوم میں ایک آواز مجھے یاد آتی ہے،مولوی غلام رسول کی گھر والی ہماری بے جی نے میری ماں کے سر پر ہاتھ رکھا ہوا تھا،ماں کے سر پر دوپٹہ درست کرتے ہوئے وہ کہہ رہی تھیں ’’شہیدوں کی بیوائیں روتی اچھی نہیں لگتیں ان کی آنکھوں میں شکر گزاری کے آنسوہوتے ہیں۔تم ایک شہید کی بیوہ ہی نہیں، شہید کے بیٹے کی ماں بھی ہو۔جسے تمہاری آغوش کی ضرورت ہے“ اور پھرجوں جوں میرے شعور کو توانائی ملتی گئی بہت سی باتیں مجھ پر منکشف ہوتی چلی گئیں۔ مجھے اپنے شہید والد کا صرف چہرہ یاد ہے جس پر ہر وقت مسکراہٹ کے پھول کھلے رہتے تھے۔مجھے ان کی آواز یاد نہیں۔میری دادی نے مجھے بتایا تھا کہ میرے دادا بھی برما کے محاذپر شہید ہوئے تھے۔ان کی خواہش تھی کہ اُن کا بیٹا بھی فوج میں جائے اور اپنی جوانمردی کے جوہر دکھائے۔دادی نے بتایا کہ میری بھی آرزوتھی کہ بیٹا محاذ جنگ پر دشمن کی گولیوں کے آگے سینہ سپر دکھائی دے۔گولیاں ہی مقدرہوں تو انہیں سینے سے لگائے اور پھر آٹھ ستمبر کو فوجی جوانوں نے گواہی دی کہ میرے شہید والدنے دشمن کا ہر وار اپنے سینے پر روکا تھا۔بتایا گیا کہ انہوں نے ایک رات تن تنہا دشمن کی ایک پوری بٹالین کو رو کے رکھا اور بالآخر اپنی جان وطن پر نچھاور کر دی۔اماں بتاتی ہیں کہ ابا فوج میں بھرتی ہی اس لئے ہوئے تھے تاکہ وہ اپنے شہید والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے پاک وطن پر اپنی جا ن قربان کر سکیں۔ستمبر جب بھی آتا ہے میرے اندر خون کھولنے لگتا ہے، مجھے فضاؤں سے اپنے شہید والد کی خوشبو آتی ہے اور میرا دل بھی وطن عزیز پر نثار ہو نے کو تڑپ تڑپ جاتا ہے۔