مقام شکر (سید ابو یاسر)

 حکایات سعدیؒ میں پند و نصیحت کا سامان بھرا ہوا ہے ایک مقام پر شیخ سعدیؒ بیان کرتے ہیں کہ محفل میں اگر ایک بدتمیز آجائے تو ساری محفل پریشان ہوجاتی ہے‘اسی لئے تو کہتے ہیں کہ دیکھا کرو کہ تم کس کو دوست بنا رہے ہو کیونکہ دوست کسی کی پہچان ہوتے ہیں اگر کوئی انسان بہت ہی سلجھے ہوئے اخلاق کا مالک ہے تاہم اس کے دوست بد اخلاق اور بد تمیز ہیں تو ان دوستوں کی وجہ سے اس کو بھی برے نام سے یاد کی جائیگا۔ اس لئے تو کہا جاتا ہے کہ جس سے دوستی کرنی ہو پہلے اس کو آزماؤ اور اس کو خوب پہچان لیا کرو۔یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر انسان اپنے جیسے لوگوں کے ساتھ رہ کر خوش اور مطمئن رہتا ہے، اگر بد اخلاق دوستوں کی محفل میں کوئی اطمینان محسوس کرے تو یہ اس کی نشانی ہے کہ اس کے اخلاق کمزور ہیں۔ورنہ وہ کیوں ایسے لوگوں کے ساتھ بے چینی کے بجائے چین اور سکون محسوس کرتا۔شیخ سعدی رحمتہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ کچھ لوگ سیاحت کے شوقین تھے اور وہ چند برسوں سے ایک دوسرے کیساتھ تھے۔ وہ دوران سفر ایک دوسرے کی تکالیف اور آرام کا خاص خیال رکھتے تھے۔ میں نے ان سے عرض کیا کہ مجھے بھی وہ اپنا ہم سفر بنالیں تو وہ اس پر راضی نہیں ہوئے۔میں نے ان سے کہا کہ بزرگوں کے اخلاق کیسے گوارا کر سکتے ہیں کہ وہ فقیروں کی صحبت سے دریغ کریں۔ میں اپنی طبیعت کے اعتبار سے چاک و چوبند اور چالاک ہوں آپ حضرات پر بوجھ نہ بنوں گا۔ اگرچہ میں کسی سواری پر سوار نہیں مگر آپ کی سواری کی زین اٹھانے والا ضرور بنوں گا۔ان حضرات میں سے ایک نے کہا کہ اگر آپ محسوس نہ کریں تو درحقیقت ہم اس لئے انکار کررہے ہیں کہ اس سے قبل ایک چور بھیس بدل کر ہمارے درمیان آگیا تھا اور جب وہ ہم سے گھل مل گیا تو پھر وہ ہمارا قیمتی سامان چرا کر بھاگ گیا۔میں نے کہا کہ شکر ہے کہ میں نے قافلہ والوں سے کچھ فائدہ حاصل کیا اگرچہ بظاہر میں آپ کے ساتھ سفر نہیں کرسکا مگر آپ نے جو کچھ بیان کیا ہے یہ تمام عمر میرے کام آتا رہے گا۔اس حکایت کا حاصل مطالعہ دوسروں کے تجربات سے سیکھنا اور کوئی دانش کی بات کرے تو اس کی قدر کرنا ہے۔بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کسی کی کوئی نصیحت طبیعت پرناگوار گزرتی ہے تاہم ٹھنڈے دل سے غور کیا جائے تو مصلحت سمجھ میں آجاتی ہے اورناراضی تشکر میں بدل جاتی ہے۔