حسین یادیں کسی سرمائے سے کم نہیں جو اچانک ذہن کے کسی دریچے سے جھانک کر انسان کو ماضی کے ان لمحات میں لے جاتی ہیں جو دل و دماغ ک روشن کر دیتے ہیں۔ماضی کی حسین یادوں کے حوالے سے نصرت نسیم اپنی کتاب ”بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں“ میں رقم طرا ز ہیں،مصنفہ لکھتی ہیں کہ یادوں کی پٹاری سے ایک اور خوبصورت یادریل گاڑی کا سفر کرنا تھا ریل کے سفر میں کیسی رومانیت و سحر ہے کہ اس کے لطف کو وہی لوگ محسوس کر سکتے ہیں جنہوں نے اس دور میں سفر کئے ہوں جب زندگی کا انداز ہی کچھ اور تھا‘ لہٰذا ریل کا سفر سب کا پسندیدہ تھا میں نے پہلے ذکر کیا ہے کہ میری خالاؤں کو جب مشکل سے باہر جانے کی اجازت ملتی تو تانگے منگوائے جاتے جن پر پردے لگے ہوتے اس معاملے میں ڈیڈی بہت سخت گیر واقع ہوئے تھے ان سے اجازت لینا ہی اپنی جگہ کسی امتحان سے کم نہ تھا اکثر یہ خدمت ہم سے لی جاتی اور اگر انہیں اجازت دینے میں تامل ہوتا تو بڑے آرام سے کہہ دیتے کہ اپنی مرضی ہے اور یہ جواب سن کر سب کے چہرے اتر جاتے‘ہائے! کہا تو ہے نا کہ اپنی مرضی ہے میں اصرار کرتی تو خالہ سمجھاتی تم ابھی بچی ہو تمہیں نہیں پتہ اس کا مطلب ہے کہ نہیں جانا‘ وہ گلوگیرآواز میں سمجھاتیں۔تاہم ایک موقع ایسا بھی تھا جس میں شرکت کیلئے اذن عام یعنی سب کو جانے کی اجازت تھی‘ سو سب کا جوش و خروش دیدنی ہوتا زور وشور سے کئی روز پہلے تیاریاں کی جاتیں ریلوے سے سیٹیں بک کرالی جاتیں‘ خداخدا کرکے جانے کا دن آتا تو منہ اندھیرے اٹھ کر پراٹھے‘قیمہ‘ آملیٹ وغیرہ بنا کر ٹفن کیرئیر میں رکھ لیتے ساتھ ہی مونگ پھلی‘ چلغوزے وغیرہ کی پوٹلی الگ سے ہوتی تانگوں میں لد کر ریلوے اسٹیشن پہنچتے قلی دوڑ کر سامان اٹھاتے اور ڈبے میں اوپر سامان لگا دیتے دیکھتے ہی دیکھتے ڈبہ خواتین سے بھر جاتا‘ رشتے دار اور جان پہچان کے لوگوں کو دیکھ کر خوشی دوچند ہو جاتی‘ منہ سے گاڑھا دھواں اگلتا ہوا انجن طرح طرح کی آوازوں اور سیٹیوں کے سر بکھرائے جنگلوں اور ویرانوں میں دیوانہ وار دوڑا چلا جاتا تھا اور ڈبے کے اندر باتیں‘ قہقہے اور کھانے پینے کے دور چل رہے ہوتے‘ میں کھڑکی کے قریب سارا وقت باہر دیکھ دیکھ کر لطف اندوز ہوتی‘ خاص طور پر خوشحال گڑھ کے پل سے گزرتے ہوئے نیچے دریا اور گاڑی کے بدلتے ہوئے سر عجیب سماں باندھ لیتے‘خوشحال گڑھ کا پل انگریزوں کے زمانے کا بنا ہوا ہے نیچے پل پر عام ٹریفک اور خاصی بلندی سے ریل میں اوپر سے دریا کا نظارہ بیک وقت خوشی و خوف لئے ہوئے ہوتا تھا۔یونہی کھاتے پیتے‘ ہنستے گاتے‘ کھڑکی سے باہر دیکھتے ریل کے سفر سے لطف اندوز ہوتے ہوئے چورہ شریف پہنچ جاتے چورہ شریف کوہاٹ اور پنڈی کے درمیان واقع ہے جہاں باقاعدہ کوئی سٹیشن نہیں کہ گاڑی ٹھہر سکے‘ لہٰذا عرس کے دنوں میں عوام کی سہولت کی خاص کر گاڑی محض تھوڑی دیر کیلئے ہی چورہ شریف پر رکتی‘ یہاں کوئی پلیٹ فارم تو تھا نہیں اس لئے ریل کا پائیدان زمین سے بہت اونچا ہوتا اور محدود وقت میں گاڑی سے اترنا اور چڑھنا مہم جوئی سے کم نہ تھا۔ نصرت نسیم کی کتا ب سے اس منتخب اقتباس کا حاصل مطالعہ ماضی کی حسین یادوں کی قدر و قیمت کااحساس ہے، یہ سرمایہ ہر کسی کے پاس ہے تاہم تیز ترین زندگی نے ہم سے یہ احساس چھین لیا ہے۔