ادب اوررسائل و جرائد کا کردار

(روزنامہ آج میں شائع ہونے والے کالم جو اپنی اشاعت پر قارئین نے بے حد پسند کئے، ان سدا بہار کالموں سے انتخاب کا سلسلہ قارئین کی دلچسپی کے لئے شروع کیا گیا ہے‘ ان کالموں میں اعدادوشمار اور حالات کالم کی تحریر کے وقت کی عکاسی کرتے ہیں).................
سوال اٹھایا گیا‘لوگ ادب کیوں نہیں پڑھتے؟ ادب کیلئے صرف اور صرف اہل قلم ہی کیوں مارے مارے پھرتے ہیں؟یہ ساری باتیں ادبی تنظیم ’اثبات‘کی دو روزہ عالمی کانفرنس کے پہلے سیشن میں گونج رہی تھیں‘جی ہاں ’اثبات‘مثبت اندازفکر رکھنے والے سلیم اختر اور شاہد رضا کا ادبی پلیٹ فارم ہے‘جسکے تحت لاہور میں یہ کانفرنس جاری تھی‘اس کانفرنس میں  ہمارے اور اظہر جاوید کے مشترکہ دوست نامور شاعر اور ادیب ڈاکٹر کیول دھیر بطور خاص تشریف لائے ہوئے تھے‘انہوں نے ہی کانفرنس کا افتتاح کیا‘خطبہ استقبالیہ سلیم اختر نے پیش کیاجبکہ شاہد رضا نے نظامت کے فرائض ادا کئے‘پہلے سیشن کی صدارت نامور ادیبہ‘ شاعرہ محترمہ بشریٰ رحمن نے کی‘اس سیشن کا موضوع تھا ’ادبی تنظیموں اور ادبی رسائل و جرائد کا کردار اور اہمیت‘اس سیشن میں ہمارے علاوہ یہاں سرفراز سید‘کیول دھیر اور مختلف شہروں سے آئے ہوئے ادبی تنظیموں اور ادبی رسائل و جرائدکے نمائندوں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا‘محترمہ بشریٰ رحمن نے موضوع کے سمندر کو کوزے میں بند کیا‘انکا خیال تھا کہ ’یہی ادبی تنظیمیں در اصل ادب اور ادیبوں کو زندہ رکھے ہوئے ہیں‘ہمارے ادبی رسائل اور جرائد جو خالصتا اپنی مدد آپکے تحت شائع ہوتے ہیں‘انکے چھاپنے والوں سے بڑھ کر ادب سے سنجیدہ رشتہ اور کس کا ہو سکتا ہے؟ ہماری نظر میں اس ساری صورتحال کاکچھ قصور اہل قلم کا بھی ہے‘گھر میں بیٹھے انہیں مفت ادبی رسائل جرائد موصول ہوتے ہیں مگر یہ رسالہ وصول کرنے کی رسید تک نہیں دیتے‘ حالانکہ اب موبائل کے سبب یہ کام دشوار نہیں‘بیشتر تخلیق کار رسالے میں اپنی غزل نظم یا تحریر دیکھ کر رسالہ ایک طرف رکھ دیتے ہیں‘ادیب‘شاعر حضرات کو ایک دوسرے کی کتابیں خریدنے کی بھی عادت نہیں‘کسی کی کتاب شائع ہوتی ہے تو ہم کتاب مفت حاصل کرنے کی توقع کر تے ہیں‘کبھی کسی نے اپنے دوست‘ادیب شاعر کی کتاب خرید کر پڑھنے کی کوشش نہیں کی بلکہ شعراء کی تو سب سے بری عادت یہ ہے کہ کسی دوست شاعر نے کتاب گفٹ کی ہے تو اسے کھول کر سب سے پہلے اوزان کی غلطیاں ڈھونڈنے لگتے ہیں‘کتاب یا شاعر کی اچھائی کبھی زیر بحث نہیں لائی جاتی‘ ہاں ایک اور بات‘اشاعتی ادارے صرف اور صرف مشہور اہل قلم کی کتب شائع کرتے ہیں‘نئے لکھنے والوں کی مناسب حوصلہ افزائی نظر نہیں آتی‘نہ ہی قدرے غیر معروف سینئر تخلیق کاروں کی کتب شائع کرنے پر توجہ دی جاتی ہے‘اس سلسلے میں حکومتی سطح پر اقدامات کی ضرورت ہے‘رسائل جرائد کی تعداد محدود ہوتی ہے‘انہیں پڑھنے والا بھی ایک خاص طبقہ ہوتا ہے‘سو ایسے رسائل کو اشتہارات ملنا دشوار ہوتا ہے‘اگر سرکاری علمی ادبی اداروں کے اشتہارات ہی ادبی رسائل و جرائد کو ملنے لگیں تو بھی انکی مالی معاونت ہو سکتی ہے‘ تاہم قابل تحسین ہیں وہ لوگ جو ادبی رسائل جرائد کے اشاعتی اور خسارے کے کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔