وزیر اعظم شہباز شریف نے ملک میں تمام سرکاری عمارتوں کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کا عزم کا اظہار کیا ہے جس کا مقصد ماہانہ 300 سے 500 میگاواٹ کی بچت اور درآمدی بل میں کمی لانا ہے جو تقریباً 27 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔اس اقدام کا آغاز اپریل تک وفاقی حکومت کے زیرانتظام سرکاری عمارتوں اور دفاتر کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے سے ہوگا۔اسلام آباد میں سولرائزیشن/شمسی توانائی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے گزشتہ 30 برسوں کے دوران برسر اقتدار رہنے والی تمام حکومتوں کو توانائی کے شعبے میں بے لگام گردشی قرضوں کا ذمہ دار ٹھہرایا جوکہ تقریباً 2500 ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں۔ ملک میں موجودہ معاشی بحران کے پیش نظر دیرینہ اصلاحات کا وقت آگیا ہے جس کیلئے بیوروکریٹس کو قوم کی خدمت کیلئے خود کو تیار کرنا ہوگا اور نیب کے خوف کے بغیر سرکاری فائلوں کو کلیئر کرنا ہوگا۔ توانائی کی بچت کے منصوبے کے تحت وفاقی حکومت کی تمام وزارتیں، محکمے، اتھارٹیز اور صوبوں میں ان کی ذیلی شاخوں کی عمارتیں آئندہ 4 ماہ میں فوری طور پر شمسی توانائی پر منتقل ہو جائیں گی، یہ اقدام صوبائی حکومتوں کے لیے بھی ایک ماڈل ہوگا۔ وزیر اعظم نے صوبوں کے وزرائے اعلی پر زور دیا کہ وہ وفاق کی طرح صوبوں میں بھی سولر سسٹم متعارف کرائیں اور اس سلسلے میں وفاقی حکومت کی جانب سے مکمل تعاون کی یقین دہانی بھی کرائی۔شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ملک میں شمسی توانائی سے 10 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنیکا عمل شروع ہو چکا ہے، وفاقی حکومت کی عمارتوں کی شمسی توانائی پر منتقلی اس طرح کی تبدیلی کا پہلا مرحلہ ہو گا۔وزیراعظم نے شرکا کو بتایا کہ ذمہ داری اور اصلاحات کے فقدان کی وجہ سے پاور سیکٹر میں گردشی قرضہ ایک عفریت کی شکل اختیار کر چکا ہے اور گزشتہ 30 برسوں میں آنے والی تمام سابقہ حکومتیں اس کی ذمہ دار ہیں، گردشی قرضہ ہمارے 700 ارب روپے کے ترقیاتی فنڈز سے 4 گنا بڑھ گیا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ نیب نے پنجاب میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے بنائی گئی 56 کمپنیوں کے خلاف بے بنیاد کیس بنایا لیکن 5 سال گزر جانے کے بعد بھی کرپشن ثابت کرنے میں ناکام رہا۔ قوم اس وقت یقینا بدترین مہنگائی کا شکار ہے، مشکل وقت کو برداشت کرنے پر عوام کو سراہتے ہیں تاہم حکومت کے پاس آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا۔ پی ٹی آئی حکومت نے آئی ایم ایف پروگرام سے پیچھے ہٹ کر ملک کو معاشی تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا اور اسی لیے آئی ایم ایف کو ہم پر اعتماد نہیں۔وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ کہ کورونا وبا کے دوران گیس کی قیمتیں 2ڈالر فی یونٹ کی ریکارڈ کم ترین سطح پر آگئی تھیں لیکن اس وقت کی حکومت نے اس کی درآمد میں مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا جس کا خمیازہ اب پوری قوم بھگت رہی ہے۔ اس وقت عالمی صورتحال کے سبب گیس دستیاب نہیں ہے، ایندھن بھی عالمی مارکیٹ میں مہنگے داموں فروخت ہو رہا ہے‘س صورتحال میں شمسی توانائی پر منتقل ہونے کا عمل برق رفتاری سے ہونا چاہیے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ توانائی کے حصول کیلئے مقامی کوئلے کو بھی بروئے کار لا رہے ہیں، ملک کو بحران سے نکالنے کیلئے جنون سے کام کرنا ہوگا۔ جس ملک میں 27 ارب ڈالر کا تیل اور گیس امپورٹ ہوتا ہو وہاں ترقی کیسے ہوگی، ہم نے آئی ایم ایف معاہدے کی دھجیاں اڑائیں، وہ ہم پر اعتماد کرنے کیلئے تیار نہیں، ہم نے آئی ایم ایف پروگرام جاری رکھنا ہے اس کے بغیر گزارہ نہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ایسے اقدامات کرنا ہوں گے جس سے صنعت اور زراعت ترقی کرے۔خیال رہے کہ سورج کی دھوپ اپنے آپ میں آلودگی سے پاک ہے اور بہ آسانی میسر ہے۔ ہندوستان کو یہ سہولت حاصل ہے کہ سال کے 365 دنوں میں 250 سے لے کر 320 دنوں تک سورج کی پوری دھوپ ملتی رہتی ہے۔ دن میں سورج چاہے دس سے بارہ گھنٹے تک ہی ہمارے ساتھ رہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ سورج کی گرمی ہمیں رات دن کے 24 گھنٹے حاصل ہو سکتی ہے۔ اس میں نہ دھواں ہے، نہ کثافت اور نہ ہی آلودگی۔ دیگر ذرائع سے حاصل توانائی کے مقابلے میں سورج کی روشنی سے 36 گنا زیادہ توانائی حاصل ہوسکتی ہے۔ دھوپ سے حاصل ہونے والی توانائی سولر انرجی یا شمسی توانائی کہلاتی ہے۔ دھوپ کی گرمی کو پانی سے بھاپ تیار کرکے جنریٹر چلانے اور بجلی بنانے میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ دھوپ قدرت کا عطیہ ہے، ہر روز دنیا پر اتنی دھوپ پڑتی ہے کہ اس سے کئی ہفتوں کے لیے بجلی تیار کی جا سکتی ہے۔ انسانی زندگی کی نقل و حرکت کا خاصا انحصار توانائی پر ہے۔ آج جس بڑے پیمانے پر توانائی کا استعمال ہو رہا ہے اس سے خدشہ یہ ہے کہ توانائی کے ذخائر بہت دنوں تک ہمارا ساتھ نہیں دے سکیں گے۔ توانائی کے یہ ذخائر اور ذرائع ماحول کو بھی آلودہ کر رہے ہیں۔ ہمیں توانائی کے نئے متبادل تلاش کرنے ہوں گے تاکہ توانائی کے ساتھ ساتھ ماحول کو بھی آلودگی سے بچایا جاسکے اور یہ تبھی ممکن ہے جب ہم تیل، کوئلہ، لکڑی اور گوبر کے علاوہ دھوپ، ہوا، پانی اور دیگر توانائی کے قدرتی ذرائع کا استعمال کریں۔ مزید برآں شمسی توانائی جو کبھی نہ ختم ہونے والا ذریعہ ہے۔ روایتی توانائی کے ذرائع ہیں کوئلہ، معدنی تیل، لکڑی اور گوبر وغیرہ جب کہ غیر روایتی توانائی حاصل کرنے کے ذرائع ہیں شمسی توانائی، آبی یا موجی توانائی، ہوائی توانائی،پودوں سے پٹرول کشید کرکے توانائی حاصل کرنا، جوہری توانائی، بائیو گیس اور ارضی حرارتی توانائی۔ کوئلہ، معدنی تیل اور برقاب توانائی حاصل کرنے کے تین اہم وسائل ہیں جن میں جوہری توانائی کا اضافہ ابھی حال میں ہوا ہے۔ کوئلہ توانائی کے حصول یا صنعتی ایندھن کا سب سے بڑا وسیلہ ہے۔ کوئلے کی تین قسمیں ہیں۔ اینتھرا سائیٹ، بِیٹومینس اور لگنائیٹ‘ ان سب میں سب سے عمدہ قسم اینھتراسائیٹ کی ہوتی ہے جس میں دھواں کم نکلتا ہے اور بہت گرمی دیتا ہے۔ دوسری قسم میں دھواں نسبتا زیادہ نکلتا ہے مگر یہ بھی کافی گرمی دیتا ہے۔ تیسری قسم میں آنچ کم اور دھواں بہت ہوتا ہے۔ بجلی پیدا کرنے کے لیے ان کا استعمال کیا جاتا ہے۔ کوئلے کے علاوہ قدرتی تیل یا پٹرولیم توانائی حاصل کرنے کا دوسرا ذریعہ ہے۔ اور یہ نہایت کار آمد ایندھن بھی ہے۔ کچے قدرتی تیل سے ہمیں مٹی کا تیل، ڈیزل، پٹرول، اسپرٹ، کھانا پکانے کی گیس وغیرہ حاصل ہوتی ہے۔ ہماری روزانہ کی زندگی میں قدرتی تیل اور اس سے بنی ہوئی اشیا کی بہت ضرورت ہوتی ہے۔ اسکوٹر، موٹر سائیکل، کار، بسیں، ریل گاڑیاں، جہاز، ہوائی جہاز ملیں اور فیکٹریاں وغیرہ پٹرول اور ڈیزل سے چلتے ہیں۔ غرض یہ کہ قدرتی تیل یا پٹرولیم ہماری معاشی زندگی کی شہہ رگ ہے۔ زمین کی گہرائیوں میں حرارت کا بے شمار خزانہ دفن ہے۔ ماہرین ارضیات کے مطابق زمین کی اس پپڑی کے نیچے درجہ حرارت 7200ۂ یعنی 4000 سینٹی گریڈ ہے۔ حرارت اکثر آتش فشانو ں کے علاوہ زمین کے مختلف حصوں سے خارج ہونے والی بھاپ کی شکل میں بھی ظاہر ہوتی رہتی ہے۔ 1904 میں غعہ-ٹحعرمال ٰنعرگے کو کام میں لانے کا منصوبہ تیار کیا گیا تھا۔ زمین کے اندر کی بھاپ کو پائپ کے ذریعے چرخاب تک لایا گیا اور اس سے بجلی پیدا کی گئی۔آج شمسی توانائی سے بہت سے کام لیے جا رہے ہیں۔ چاہے کھانا پکانا ہو، پانی گرم کرنا ہو یا مکانوں کو ٹھنڈا یا گرم رکھنا ہو۔ فصلوں کے دنوں میں دھان سکھانا ہو یا پائپوں کے ذریعے سینچائی‘ دہلی کے نزدیک گوالی پہاڑی میں سورج سے بجلی کی توانائی حاصل کرنے کیلئے ایک بجلی گھر بنایا گیا ہے جہاں پیداوار اور تحقیقی کام کیے جا رہے ہیں‘ ملک کے دیگر حصوں میں صہلار ُحہتہطہلتایچ ثعنترعس قائم کیے جا چکے ہیں جو ایک کلوواٹ سے ڈھائی کلوواٹ تک بجلی پیدا کرتے ہیں۔ گھروں‘ڈیریوں،‘ کارخانوں‘ہوٹلوں اور ہسپتالوں میں پانی گرم کرنے کے لیے ایسے آلات لگے ہیں جو 100 لیٹر سے لے کر سوا لاکھ لیٹر تک پانی گرم کر سکتے ہیں۔ شمسی چولھے کم سے کم دو کلو لکڑی کی بچت کر سکتے ہیں۔