دوست جو مشکل میں کام آئے

 اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک کو اس وقت شدید معاشی مشکلات کا سامنا ہے اور ایسے میں دوست ممالک کی طرف سے مالی معاونت یقینا اہم ہے۔ حال ہی میں سعودی ولی عہد نے پاکستان میں سرمایہ کاری اور ڈپازٹ 15 ارب ڈالر تک بڑھانے کی ہدایت کردی ہے۔ سعودی عرب کی سرکاری خبر ایجنسی کے مطابق سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے سٹیٹ بینک آف پاکستان میں ڈپازٹ کی رقم 5 ارب ڈالر تک بڑھانے پر غور کرنے کی ہدایات جاری کی ہیں‘ پاکستان میں سعودی عرب کی جانب سے 10 ارب ڈالرکی سرمایہ کاری بھی کی جائے گی۔سرکاری خبر ایجنسی کا مزید کہنا ہے کہ محمد بن سلمان کی جانب سے پاکستان میں سرمایہ کاری اور ڈپازٹ بڑھانے کا اعلان وزیراعظم شہباز شریف اور محمد بن سلمان کے درمیان رابطوں کے تناظر میں کیا گیا ہے۔ سعودی عرب نے 25 اگست 2022ء کو پاکستان میں ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا تھا‘ اس امداد اور سرمایہ کاری کے اعلان کے بعد سٹاک ایکس چینج میں تیزی دکھائی دینے لگی۔ اب کچھ بات ہو جائے کچھ بین الاقوامی امور کی جہاں بھارت نے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ تیز کر رکھاہے اوراس وقت سے بی جے پی حکومت نے کشمیریوں کو بے اختیار کرنے‘ حق رائے دہی سے محروم کرنے اور کشمیر کی مسلم شناخت کو تبدیل کرنے کیلئے کئی طرح کے انتظامی‘ آبادیاتی اور انتخابی اقدامات میں مصروف ہے‘ اسکے متعدد اقدامات مقبوضہ فلسطین میں اسرائیل کی آباد کار پالیسیوں کی نقل ہیں۔مئی 2022ء میں ہندوستان کے حد بندی کمیشن نے نئی انتخابی حلقہ بندیوں کے منصوبے کا اعلان کیا تھا جس کا مقصد جموں کو زیادہ نمائندگی دینا ہے تاکہ جموں و کشمیر اسمبلی میں مسلمانوں کی نمائندگی کو کم کیا جاسکے اور سیاسی توازن کو ہندوؤں کے حق میں کیا جاسکے۔ مسلمان جموں و کشمیر کی آبادی کا 68 فیصد سے زیادہ ہیں جبکہ 2011ء کی مردم شماری کے مطابق ہندو 28 فیصد کے قریب ہیں۔ بی جے پی حکومت حلقہ بندیوں کے منصوبے کے ذریعے مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنا چاہتی ہے۔بھارت کی طرف سے متعارف کروائے گئے نئے ڈومیسائل قوانین کے ذریعے بھی آبادیاتی تبدیلیوں کی کوشش کی گئی ہے۔ غیر کشمیریوں کو 34 لاکھ سے زیادہ نام نہاد ڈومیسائل سرٹیفکیٹ جاری کیے گئے ہیں۔ یہ افراد 2019ء میں بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35آ کی منسوخی کے بعد ڈومیسائل کے اہل ہوئے تھے۔ جولائی 2022ء میں مقبوضہ وادی میں چیف الیکشن آفیسر نے کسی بھی ہندوستانی شہری کو‘ یہاں تک کہ عارضی رہائشیوں کو بھی کشمیر میں ووٹنگ کا حق دینے کا اعلان کیا تھا۔کشمیری ثقافت پر ہونے والے بی جے پی کے حملوں میں اردو کی حیثیت کو ختم کرنا بھی شامل ہے۔ 100 سال سے زیادہ عرصے تک اُردو جموں و کشمیر کی سرکاری زبان تھی لیکن 2020ء میں اُردو کی خصوصی حیثیت کو قانون سازی کے ذریعے ختم کر دیا گیا جس نے جموں و کشمیر میں اُردو اور انگریزی کے علاوہ ہندی‘ کشمیری اور ڈوگری کو سرکاری زبانیں بنا دیا۔ اب کشمیری زبان کے رسم الخط کو نستعلیق سے دیوناگری رسم الخط میں تبدیل کرنیکی کوششیں جاری ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی اقدام عالمی برادری کی توجہ حاصل نہیں کرسکا جو لمحہ فکریہ ہے۔